راج کپور نے دور سے دلیپ صاحب کو مخاطب کر کے محبت اور بے تکلفی بھری آواز لگائی"او لالے"۔دلیپ صاحب حساس تھے بہت،انہیں اندازہ تھا کہ جلد یا بدیر ایسا ہی ہو گا۔چند فلم سٹارز کو پار کر کے چند سیکنڈز میں ہمارے سامنے تھے۔اس سے پہلے کہ احمد صاحب یا راج کپور کچھ کہہ پاتے،دلیپ صاحب احمد صاحب کے گلے لگ چکے تھے۔1981ء میں اپنے دورۂ بھارت میں احمد صاحب جب تک بمبئی میں رہے،وہ راج کپور صاحب کے مہمان رہے۔اس دوران وہ سلیم اور جاوید صاحب سے بھی ملے اور بھارت کے بڑے فلم میکرز،ڈائریکٹرز اور رائیٹرز سے بھی۔اس وقت تک پاکستانی فلمی صنعت کا زوال اپنے کمال تک نہیں پہنچا تھا۔یاد رہے کہ 1981ء میں ضیا ء الحق کی طاقت کا سورج اپنے نصف النہار پر تھا۔پاکستان ٹیلی وژن نے ان کی ہدایت پر اور مزاج پر شیروانی پہن لی اور سر پر دوپٹہ بھی اوڑھ لیا۔اس دوپٹے کا پلو ذرا سا سرک جاتا تو بہت کچھ خطرے میں پڑ جاتا تھا۔عشرت فاطمہ نیوز کاسٹر کا دوپٹہ اور اظہر لودھی کی شیروانی استعارے تھے ضیاء عہد کے۔فلمی صنعت کے بڑے نام۔۔حسن طارق(امرائو جان ادا)،پرویز ملک(ارمان)،مسعود پرویز(ہیر رانجھا) اور ان جیسے دوسرے باکمال رائیٹرز، میوزک کمپوزر اورکہانی نویس خاصے پریشان تھے۔حیرانگی سے بدلتی صورتحال کو دیکھ رہے تھے مگر کچھ کر نہ سکتے تھے۔جہاں سیاستدان بے بس ہو وہاں فلم کا سمراٹ کیا حیثیت رکھتا ہے۔بھٹو صاحب کو پھانسی 1979ء میں ہوئی اور ایک پنجابی فلم بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔مولا جٹ۔بتانا ضروری ہے کہ 1975ء میں ریلیز ہونے والی فلم وحشی جٹ کا یہ غیر اعلانیہ سیکوئیل تھا۔اس فلم کو اور مولا جٹ کو بھی ناصر ادیب نے لکھا۔وحشی جٹ سے پہلے ناصر ادیب ایک فلم العاصفہ کا معاوضہ وصول کر چکے تھے، عدالت کے ذریعے۔ان کا تعلق سرگودھا کے ایک گائوں سے تھا۔جہاں کا ایس ایچ او ان کے بچپن میں ان کے سامنے ان کے والد کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ ناصر ادیب صاحب کے تخیل میں فریز ہو جاتا ہے۔ ناصر ادیب کی کہانی پھر سہی ،بڑی دلچسپ ہے۔1975ء میں جو وحشی جٹ بنی وہ احمد ندیم قاسمی کے افسانے"گنڈاسہ"سے ماخوذ تھا۔سلطان راہی کو اس فلم نے سٹار بناد یا۔اس سے پہلے وہ اسلم ڈار صاحب کی بشیرا اوریار دیس پنجاب دے کے ذریعے پنجاب کی غیرت کا لائوڈ استعارہ بن چکے تھے۔اس وقت کچھ ڈائریکٹر اس رجحان کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔آغا جی اے گل صاحب اور ڈبلیو زیڈ احمد صاحب اور بہت سے خوبصورت ڈائریکٹر اور کہانی نویس بھی۔مسعودپرویز ،ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کے شاگرد تھے۔وہ بھی اس جہاد میں شامل تھے۔پہلے جو فلمیں بنتی تھیں ان کے نام کچھ اس طرح ہوتے تھے۔۔۔انتظار،سہیلی،کوئل،ہیر رانجھا،سالگرہ،عذرا اور بندگی۔پھر فلمیں بننے لگیں۔۔وحشی جٹ،مولا جٹ،جٹ دا کھڑاک،پتر شاہیے دا،شیر خان اور شعلے وغیرہ۔میں نے ایک دن احمد صاحب سے پوچھا کہ آپ اب فلمیں کیوں نہیں بناتے؟کہنے لگے: جہاں نان پروفیشنل لوگ، پروفیشن میں آ جائیںوہاں کام کرنا اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔داد دیتا ہوں آغا جی اے گل کو اور اس کے بیٹوں کو کہ وہ ندی کے الٹے رُخ پر تیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔احمد صاحب فلم نگری کے حالات سے مایوس ہو کر اپنے سٹوڈیو میں ایک فلم اکیڈمی بنانا چاہتے تھے۔حکومت ان سے تعاون کرنے کی بجائے ایک سرکاری ادارے کے ذریعے انہیں اس جگہ سے بھی بے دخل کرنے پر تلی ہوئی تھی۔وہ مقدموں میں گردن تک دھنسے ہوئے تھے۔میں انہیں دیکھ کر اکثر سوچتا کہ وہ انگریز کے دور میں جوان ہوئے تھے۔اُن کا بڑھاپا پاکستان کی بیوروکریسی اور حکومت سے الجھتے الجھتے اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔اور پھر یہی ہوا۔ایک ارادہ احمد صاحب کا تھا اور ایک ارادہ اُس "عصر "کا جس میں وہ زندہ تھے۔ احمد صاحب 1947ء کے بعد کی پاکستانی فلم نگری کے جو قصے اور کہانیاں سناتے،وہ سب اکثر ٹریلرز کی شکل میں سماعت اور خیال کے دروازے پر دستک دیتے رہتے ہیں۔پاکستان بن چکا تھا۔فلم ہنر مندوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔انہی دنوں پلازہ سینما کے ساتھ ایک خالی پلاٹ میں حسبِ عادت احمد صاحب بیڈ منٹن کا کورٹ لگائے کھیل رہے تھے۔وہ نیکر،بنیان اور فلیٹ بوٹ پہنے ہوئے تھے۔رشید عطرے صاحب کورٹ کے پاس آ کر کھڑے ہوئے گئے۔ احمد صاحب نے کھیل ختم کیا اور ان سے گپ شپ لگانے لگے۔عطرے صاحب کا چہرہ اترا ہو تھا۔بات آگے بڑھی تو کہنے لگے"گھر میں کھانے کو کچھ نہیں،بھنے ہوئے چنوں پر گزارا ہو رہا ہے"۔احمد صاحب نے انہیں فوری طو ر پر ملازمت پر رکھ لیا۔سعادت حسن منٹو بھی احمد صاحب کے ہاں تنخواہ پر کام کرتے رہے۔رشید عطرے صاحب بغیر نغموں کے دھنیں بناتے اور انہیں ریکارڈ کر لیا جاتا کہ جب فلم بنے گی ،گانے لکھے جائیں گے تو اُن پر یہ دھنیں چڑھا لی جائیں گی۔یہ وہی رشید عطرے ہیں جنہوں نے فیض احمد فیض کی مشہور غزل"مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ"کی دھن بنائی اور ملکہ ترنم نے اسے گا کر امر کر دیا۔علامہ اقبال ٹائون میں عطرے صاحب کے بیٹے وجاہت عطرے میرے گھر کے قریب رہتے تھے۔ وجاہت صاحب سے اُن کے والد اور اُن کے کام پر سیر حاصل گفتگو رہی۔رشید عطرے صاحب کے ایک شاگرد بھی ہیں۔ذوالفقار عطرے۔ 23مارچ کے دن انہیں ایوارڈ بھی ملا ہے مگر یہ پوری کہانی ہے۔پھر سہی۔ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کاپورا نام وحید الدین ضیاء الدین احمد تھا۔پونا میں ان کے ادارے کا نام شالیمار پکچرز تھا۔ان کے ایک شاگرد نے پاکستان فلم انڈسٹری میں بڑا نام کمایا۔یہ تھے خوبرو ڈائریکٹر مسعود پرویز صاحب۔یہاں کی فلم نگری میں ان کی پہلی فلم"بیلی"پِٹ گئی۔حالانکہ اس فلم کے کہانی نویس سعادت حسن منٹو تھے اورمیوزک رشید عطرے کا تھا۔صبیحہ اور سنتوش اس کی سٹار کاسٹ تھے۔گانے احمد راہی نے لکھے تھے اور میرا خیال ہے اس کے پروڈیوسر ڈبلیو زیڈ احمد تھے۔مگر آنے والے دنوں میں مسعود پرویز صاحب نے انتظار،زہرِ عشق،کوئل،جھومر اور ہیر رانجھا بناکر فلم نگری کے ماتھے پر اپنے کام کا جھومر سجا دیا۔مسعود پرویز سعادت حسن منٹو کے خالہ زاد تھے۔احمد صاحب،آغا جی اے گل اور حکومت پاکستان کے مابین کیا ہوا؟پھر کبھی سہی۔