داسو ہائڈل پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی باشندوں پر دہشت گردانہ حملے کے بعد ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی و عسکری قیادت نے مجرموں کو جلد پکڑنے کا عزم اور سرحد پار ان کی پناہ گاہوں پر اظہار تشویش کیا ہے۔ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے میڈیا کو بتایاکہ بشام واقعے کی تحقیقات ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے ذریعے کروائی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی چینی شہری کسی بھی ایئرپورٹ پر اْترتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دی جاتی ہے تاکہ سکیورٹی کا انتظام کیا جا سکے۔وفاقی وزیر کے مطابق ’ایس او پیز میں اگر کوئی کمی ہے تو اسے دور کیا جائے گا۔وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ چاہے چینی شہری ہوں، ملک کی حساس تنصیبات ہوں یا ہمارے اپنے شہری ہوں، ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اْٹھایا جائے گا۔ان کے مطابق ’سی پیک اور سی پیک کے علاوہ منصوبوں پر مامور چینی افراد کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آخری دیشت گرد کے خاتمے تک لڑیں گے،انہوں نے کہا کہ دشمنوں نے ریاست پاکستان اور یہاں کے عوام کے حوصلے کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ پاکستان تنازعات سے بھرے خطے میں واقع ہے۔ارد گرد کے تصادم بسا اوقات پاکستان کی سرزمین پر دکھائی دینے لگتے ہیں جنہیں واپس دھکیلنے کے لئے مسلح افواج اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔آج سیکورٹی کا کلاسک تصور کافی نہیں ہے۔ ہمیں سماجی، اقتصادی اور ثقافتی عوامل کو بھی شامل کرنے کے لیے اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ "انسانی سلامتی" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اس معنی میں سکیورٹی کا مطلب لوگوں کی بنیادی آزادیوں اور مختلف قسم کے خطرات سے تحفظ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس میں لوگوں کی جسمانی سلامتی اور وقار کے ساتھ ساتھ ان کی روزی کمانے کی صلاحیت کے تحفظ کے لیے مناسب ڈھانچے کی تخلیق بھی شامل ہے۔پاکستان کے ماحول میں بد امنی انسانی جان اور کاروبار دونوں کو متاثر کر رہی ہے۔بلاشبہ سکیورٹی کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی نہیں ہو سکتی۔ نائن الیونکے واقعات کے بعد سے گزشتہ برسوں میں، پاکستان کی معیشت کو دہشت گردی کی کارروائیوں سے بلاواسطہ اور بالواسطہ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جو کہ 43000ارب روپے کے برابر ہے۔دہشت گردی کی کارروائیوں سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے نمایاںجائیداد اور زندگیوں کی براہ راست معاشی تباہی ہے۔ دہشت گردی بالواسطہ طور پر مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال، سیاحت کا نقصان، اور بیمہ کے دعووں میں اضافہ کرکے معیشت کو متاثر کرتی ہے۔چین پاکستان میں معاشی بہتری کے لئے کام کرتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے۔مارچ 2018 میں پاکستان نے اعلان کیا کہ زیر تعمیر پاور پلانٹس کی تکمیل کے بعد پن بجلی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔پاکستان کا مقصد 2030 تک اپنی بجلی کی ضروریات کا 25 فیصد قابل تجدید توانائی کے وسائل سے پیدا کرنا ہے۔ چین کی زونرجی کمپنی نے بہاولپور شہر کے قریب 6,500 ایکڑ پر مشتمل قائد اعظم سولر پارک تیار کیا۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ سنکیانگ سن اواسس نے مکمل کیا ، اور اس کی پیداواری صلاحیت 100 میگاواٹ بتائی گئی ۔اگرچہ یہ منصوبہ حکومتی ناقص منصوبہ بندی کی نذر ہو گیا لیکن چین کا تعاون دستیاب رہا۔پاکستان کی موجودہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت 24,830 میگاواٹ ہے۔ توانائی کی پیداوار CPEC منصوبے کا حصہ ہے، اس شعبے میں تقریباً 33 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ایک اندازے کے مطابق CPEC کے ابتدائی منصوبوں سے 10,400 میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہوئی۔پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں ۔اکثر رینجرز، فوج، لیویز اور پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن کئی بار حکومت کی جانب سے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی عملے کی حفاظت کے لیے خصوصی فورس بنانے کے بھی اعلانات سامنے آتے رہے ہیں۔ ملک میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھی ایک ’سی پیک یونٹ‘ ہے جو چینی شہریوں کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹبلری کو بھی اکثر اوقات تعینات کیا جاتا ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سکیورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہیں۔یقینا عسکری قیادت اس سلسلے میں ناصرف اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے بلکہ سویلین اداروں کی صلاحیت بڑھانے کے لئے بھی قابل قدر کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔ ماہرین کے خیال میںہر دہشتگرد حملہ سکیورٹی کی ناکامی ہوتا ہے لیکن بشام میں ہونے والا حملہ ایک بڑی ناکامی تھی۔ جولائی 2023 میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اوروہاں کام کرنے والے چینی انجنیئروں کی سکیورٹی کے لیے رینجرز، لیویز اور واپڈا اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنائی جانی تھی۔یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ تازہ حملے کے وقت یہ ٹاسک فورس کہاں تھی اور کیا کر رہی تھی؟۔بشام واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ضروری ہے تاکہ سرمایہ کاری کو تحفظ دیا جا سکے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان اپنے دوست اور مدد گار ملک کے باشندوں پر حملے کو ایک بڑی سازش کا حصہ سمجھتا ہے۔