آج کے دور میں یہ حقیقت ہے کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتالیکن شرط یہ ہے کہ اسے ہر ملک کے خصوصی ماحول اورحالات کے مطابق ڈھالا ہوتا ہے تب ہی وہ ایک ایسی متحرک جمہوریت ہو سکتی ہے جو حقیقت میں لوگوں کو با اختیار بنائے اور ایسی حکومتیں تشکیل دیں جو ان کی ضروریات پوری کریں اگرہم صرف ایساہی کررہے ہیں تو وہ صرف جمہوریت کی ایک نقل ہے جس میں نہ اس کی روح ہے نہ مادہ۔ اگرہم اپنا تجزیہ کریں تو آزادی کے بعد آج تک ہم اس حقیقی جمہوریت کا ذائقہ نہ چکھ سکے کیونکہ ایسا نظام جو عوامی امنگواں کے مطابق ہو اور وہ عوام کے مفاد اور بہبودکے لیے ہو۔درحقیقت وہی اصل جمہوریت ہے۔ آج ہم بانگ دہل انداز میں جسے جمہوریت کہہ رہے ہیں وہ اس اعتبارسے حقیقی جمہوریت نہیں کہ ہم نے پاکستان میں ایک چھوٹے مراعات یافتہ طبقے کی حکومت کا رواج ڈال لیاہے جو کبھی بھی جمہوری نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے اس نظام میں زیادہ تر مالدار لوگ ہوتے ہیں اور یہ سب جمہوریت کے لبادے میں قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ کے ساتھ عوام کے نام پرحکومت کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیں ایک جاگیردارانہ اورسرمایہ دارانہ نظام ملا ہے۔ لوگ صوبوں قبیلوں ذاتوں اوربرادریوں میں منقسم ہیں۔وقت کے ساتھ سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی ہے۔ جولوگ بھی اس عمل سے گزرکرآتے ہیں وہ اپنی من مانی کرتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان میں عموماً کم تجربہ کار بلکہ نا اہل ہیں ۔الیکشن جمہوریت کی طرف جانے کے لیے ایک گاڑی جیسا ذریعہ ہے اور اس پر ہر چیز ختم نہیں ہو جاتی۔ ہماری ناکارہ جمہوریت نے جومحض ایک مخصوص طبقے کا دفاع کرتی ہے اس نے ملک کو بہت سے نقصانات پہنچائے ہیں اور پھر ملک میں مارشل لائوںکے سبب ہم آمرانہ نظام اور ہر بار نت نئے تجربات سے گزرے ہیں جس میں ملک کو ایک لیبارٹری کی طرح کچھ اپنی مرضی کا کرنے اور نیا کرنے کی کوشش کی گئی ۔گزشتہ 75برس کی تکالیف سے ہم نے کچھ سبق بھی سیکھے ہیں اور ان میں سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ اب زیادہ لوگ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے لیے حقیقی جمہوریت کے بغیرکوئی چارہ نہیں ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ ہم اس مخمصے میں ہیں کہ ہمارے لیے جمہوریت درست بھی ہے یانہیں۔ در اصل ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک اورقوم کے لیے جمہوریت کوچلنا چاہیے عوام ایک ایسانظام چاہتے ہیں اوراس کے شدید خواہش مندہیں کہ ملک میں وہ حقیقی جمہوریت آسکے جو عام عوام کے لیے سہولت اورآسودگی پیدا کر سکے۔وہ لوگ آگے آسکیں جولوگوں کے دکھ درد اور مسائل جو عوام کی نا امیدیوں اورخواہشات کو سمجھیں اوران کا مداوا کریں ۔اگر ایسا نہیں ہے توپھراسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں متعدد انتخابات ہوئے ہیں لیکن صرف مراعات یافتہ طبقے کے افراداکثرکامیاب ہوتے ہیں جن کا اولین مقصد اپنی مراعات کا تحفظ اور تسلسل قائم رکھناہے ۔چاہے اس کے لیے عوام سے روح گردانی کرنی پڑے یاملک کو داؤ پر لگانا پڑے۔ یہ استعدلال اپنی جگہ درست ہے کہ اقتصادی ترقی ملک کی پیشقدمی کے لیے ضروری ہے لیکن اگر ملک کی عوام بشمول غریب عوام کامعیارزندگی بہترنہیں ہوتا تو پھر یہ بے معنی ہے بڑی بڑی اقتصادی کامیابیوں کابھی کوئی فائدہ نہیں اگران کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے اگرآپ کے انتظامی اقدامات اوراصلاحات سے عوام کی بہتری کے اسباب پیدا نہیں ہوتے تواس کا کیا فائدہ ۔یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے لیڈر، حکمر ان اورصاحب اقتدار اور اختیار اپنی موج مستی میں اپنے کارنامے گنواتے ہیں تو لوگ ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ لوگ جب مایوس ہوتے ہیں توملک اوراس کے سسٹم پر سے ان کا اعتماد اٹھنے لگتاہے اس لئے ذراغورکریں کہ پاکستان کی رنگ برنگ سیاسی تاریخ میں مارشل لاء اور جعلی جمہوریت کے مابین صحیح اورحقیقی جمہوریت کا راستہ مختلف اور مشکل رہاہے۔ ہماری بڑی اور اہم سیاسی پارٹیوں کا المیہ ہے کہ ان کاسربراہ ایک فرد ہوتا ہے اس فرد کو ہٹا دیں تو پارٹی ختم ہوجائے گی ان پارٹیوں میں کبھی بھی اندرونی طور پر جمہوریت نہیں رہی پارٹی کاسربراہ ہی پارٹی ہے وہ پارٹی کے پارٹی کے عہدوں پرجس کوچاہتا ہے اس کا تقرر کر دیتا ہے جو عموماً چاپلوسی اور خوشامدی ہوتے ہیں آپ ان تمام جماعتوں کے حکومت کرنے کے انداز کو دیکھیں یہ وزارتوں سے لیکراہم عہدوں پراپنی مرضی سے تعیناتیاں کرتے ہیں اس بات کی فکرکیے بغیرکہ جس شخص کووہ ذمہ داری دی جارہی ہے وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ آپ دیکھ لیں تجارتی بنکوں اورمالیاتی اداروں یا دوستوں کی تقرریوں کی بھر مار ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ایک متوازن رفتار سے ترقی نہ کر سکے۔ سرمایہ کاری کی شرح کم ہوتی رہی اور بیرونی قرضے بڑھتے رہے اس لیے بتدریج ہمارا اقتصادی معاشرتی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ غربت کی شرح بڑھنے سے مجموعی طور پر لوگوں میں بے چینی بڑھتی رہی ان کا معیار زندگی کم ہوا اور نوبت اب دو وقت کی روٹی تک پہنچ گئی۔ ہمارے ہاں یہ ریت بھی خوب ہے کہ ہرآنے والے حکمران ملک کی تمام ترخرابیوں کی ذمہ داری اپنی پیش اوپر ڈالتا رہا ہے۔ درحقیقت ہم نے اقتصادی استحکام کے حصول اس شعبے میں کمزوریوں اورخرابیوں کوختم کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات اقتصادی حکمرانی کے معیار کوبہترکرنے اور غربت کوکم کرنے جیسے اہم ترین امور پر توجہ نہیں دی۔ اس کے نتیجے میں بیرونی قرضے بڑھتے رہے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اقتصادی معاملات کوصیح طورپرچلانے کے لیے ایسے نظام کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سب کو یکساں مواقع حاصل ہوں اور ایسے تمام راستے بندکردیے جائیں جو چند مراعات یافتہ لوگوں کوترجیح دیتے ہوں ایک شفاف یکساں اور ہموار سسٹم لانے کی ضرورت ہے جوابدہی کا طریقہ کار زیادہ موثر انداز میں نافذکیاجائے جولوگ کرپشن میں ملوث پائے جائیں انہیں ان کے عہدے اور تعلقات کی فکرکیے بغیر ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ افسوس کی بات ہے حکمرانوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی سرکاری کاروباری اداروں میں اوپرکی سطح پراہل اور ایماندار لوگوں کی تعیناتی بہت ضروری تھی جس کا خیال بلکل نہیں رکھا گیا ورنہ ایسے لوگموجود تھے جو اداروں کو نقصان سے نکال کر منافع بخش اداروں میں بدل سکتے تھے۔ کئی اداروں میں ایسے لوگ تعینات کئے گئے تھے اور انہوں نے وہ سب کچھ کر دکھایا تھا۔ اخراجات کم کرنے اور آمدنی کے ذرائع بڑھانے پر توجہ دینی ہو گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے تمام تر تعلقات اور ذرائع استعمال کرنے چاہیئے۔ یہ بات یاد رکھنی ہے کہ سرمایہ کار کبوتروں کی طرح ہوتے ہیں جب حکومتیں اپنے خراب اورغلط فیصلوں سے انہیں خوفزدہ کر دیتی ہیں تو وہ سب کے سب ایک ساتھ اڑجاتے ہیں اب دیکھ لیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے ناکام ریاست کا ڈراؤنا لفظ ہر ایک کے لبوں پر تھا آپ دیکھیں چند ماہ میں چند اقدامات کئے گئے معیشت میں ہلکی سی جان آگئی ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کچھ بہتر ہوئی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہماری بات سننے پر مجبور ہوئے لیکن یادرکھیں جمہوریت کااصل ثمر اور معیشت کی بحالی اس وقت تک بیکارہے جب تک اقتصادی فائدے عوام کو بہتر معیار زندگی کی شکل میں منتقل نہ ہوں ۔عام پاکستانی یہ نہیں سوچتاکہ جمہوریت کی تعریف کیاہے بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ جمہوریت نے اس کی زندگی میں کیا تبدیلی پیدا کی۔