گندم پاکستان کے لئے ایک انتہائی اہم فصل ہے جس کا قومی آمدنی میں حصہ 1.9فیصد ہے جبکہ زراعت میں گندم کی قدرافزائی (Value Additon)کا حصہ 8.2فیصد ہے۔چونکہ ہم اپنی بنیادی خوراک کا قریب قریب ساٹھ سے ستر فیصد گندم سے حاصل کرتے ہیں چنانچہ ملک میں غذائی تحفظ کے ضمن میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گندم سے جڑے تمام مسائل ہماری معیشت اور عوام پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق ہم چوبیس کروڑسے زائدافرادکا ملک بن چکے ہیں جس کی گندم کی ضروریات پوری کرنے کے لئے124کلوگرام فی فرد سالانہ کے حساب سے ہمیں 30.5ملین ٹن گندم درکار ہوگی جبکہ گذشتہ سیزن میں بہتر پیداوار کے باوجود 27.6ملین ٹن گندم پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے۔گزشتہ برس کے ذخائر 2.1ملین ٹن کے قریب ہیں۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ضروریات کے لئے درکار گندم پیدا کرنے میں ایک بار سے ناکام رہے ۔کیا المیہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی ہمیں ایک بار پھر گندم درآمد کرنی ہو گی ۔ مزید المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کو گندم جیسی بنیادی ضرورت مناسب اور متوازن قیمت پر فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔گندم کی قیمت میں اضافہ ملک میں مہنگائی کے اضافے کا باعث بھی ہوتا ہے ۔ بہتر پیداوار کے باوجود گندم کی قیمتیں امدادی قیمت کی حد بھی پار کر گئیں۔اس وقت پنجاب کے مقامی بازاروںمیں یہ قیمتیں قریب قریب 4700روپے فی من تک پہنچ چکی ہیں جبکہ سندھ میں 5000 روپے فی من اور خیبرپختونخواہ میں5000روپے فی من سے بھی زائد ہیں ۔پاکستان میں قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک افغانستان کو سمگل ہونیوالی گندم بھی تھی مگر گزشتہ برس ہم نے ایک اور تاریخی امر کا مشاہدہ کیا کہ جب افغانستان نے روس سے سستے داموں گندم خرید لی، جس کی وجہ سے اس امر کاامکان پیدا ہوا کہ اس بار قیمتوں کے توازن پر سمگلنگ کے اثرات نہیں پڑیں گے تو یہ امید اور بھی توانا ہو گئی کہ مہنگائی کے اس ہنگام میں ہم اپنی قوم کو بہتر اور متوازن قیمت پر گندم فراہم کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔مگر یہ امید بھی بر نہ آئی ۔ یہاں یہ سوال مزید اہم ہو جاتا ہے کہ آخر اس سارے نظام میں خرابی کی بنیادی وجہ کیا ہے کہ اربوں روپے کی حکومتی سرمایہ کاری کہیں سودمند ثابت ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔ قیمتوںمیں آئے روز کے اس اضافے میں ذخیرہ اندوزی کا عمل دخل کس حدتک ہے ؟جس کی وجہ سے مصنوعی طور پر رسد میں کمی پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ امر اس لئے بھی قابلِ قبول نہیں کہ گندم کی سب سے بڑی خریدار تو حکومت خود ہے جو پاسکو اور صوبائی سطح پر محکمہ خوراک کے ذریعے تیس سے چالیس فیصدتک گندم براہِ راست خریدتی ہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہی قیمتوں میں اضافہ ہو تاہے تو حکومت کی انتظامی گرفت پر سوالیہ نشان ہے ۔ اگر اس سے غفلت برتی جا رہی ہے تو یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے ۔مزید یہ کہ اگر ایسا ہے تو حکومت کو فوری طور پر اپنے ذخائر سے مناسب مقدارمیں گندم مارکیٹ میں بھیجنی چاہیئے تاکہ رسد کی کمی کاخلا پر ہو اور ان قیمتوں کو لگام ڈالی جا سکے ۔ قیمتیں ایک بار بڑھ جانے کے بعد واپس آنے سے انکار کر دیتی ہیں، جو چند ایک بیانات تک محدود حکومتی استعداد اور اہلیت کو بری طرح سے آشکار کردیتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک تو گندم بروقت مارکیٹ میں بھیجی نہیں جاتی دوسرے اس عمل میں حکومت کو مزید سبسڈی فراہم کرنی ہوتی ہے ۔چونکہ حکومتی مراکز سے جاری کی جانیوالی گندم کی قیمت مارکیٹ سے کم ہوتی ہے سو اس عمل نے ایک اور مسئلے کو جنم دیا ہے جو ہماری ضرورت سے زائد فلورملزکی صورت میں سامنے آیا ہے ۔یہ ملیں سارا سال بند رہتی ہیںاور صرف بحرانی مواقع پر اپنے سیاسی اثرورسوخ سے بھر پور استفادہ کرتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت اندازاََاٹھارہ سو ملیں ہیں جن میں سے پانچ سو کے قریب غیر فعال ہیں ۔ ان ملوں کی کل صلاحیت 11.5ملین بیس کلو گرام تھیلے روزانہ کی ہے جبکہ ہماری ضرور ت صرف 2ملین تھیلے روزانہ کی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکومتی عوامل سے کچھ مثبت نہیں ہوپاتا، قیمتیں قابو سے باہر ہیں اور نظام پر دوبارہ غور کرنے اور اس کی اصلاح کی کسی کو پرواہ نہیں ۔انتظامی ایوانوں میں ایک لمبی چپ ہے اور مجرمانہ غفلت۔ ایک طویل المدتی لائحہ عمل کی تنظیم و تشکیل کے لئے بہت سے پہلو ہیں جن پرغورکرنا ازحد ضروری ہے۔مثلاََگندم کے سلسلے میں عالمی بازار کے رجحانات یہاں کی قیمتوں کے نظام پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کا ممکنہ حل کیا ہے ؟نظام ِرسد کوکس طرح مزید مربوط کیا جا سکتا ہے ،گندم کی ذخیرہ اندوزی کے دوران ہونیوالے نقصانات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر گندم کے بڑے کاشت کاروں نے اپنے نظام کو کس طرح سے بہتر بنایا کہ آج وہ درآمد سے برآمدکنندگان میں شامل ہو گئے ہیں ۔ زراعت اور خصوصی طور پر گندم پہ ہونیوالی تحقیق اورزرعی سائنسدانوں کی کاوشوں کے ثمرات ہم تک کیوں نہیں پہنچ سکے؟امدادی قیمت کی پالیسی اس نظام کو کس طرح متاثر کررہی ہے اور اس کی سمت کا تعین کیسے کیا جائے ؟ (جاری ہے)