گْل مہر درختوں کا شاعر ہوتا ہے۔اس پر پھول گچھے کی صورت نکلتے ہیں۔ گویا ایک شعر نہ ہوا ایک غزل ہو ایک شعری مجموعہ نہ ہو ایک دیوان ہو۔اس میں شدت بھی شاعروں کی سی ہوتی ہے اور موسم ِ گرما میں زیادہ جوبن پر آتا ہے۔کئی ممالک کا یہ قومی درخت بھی ہے یہاں ذرا کم پیدا ہوتا ہے۔کسی شاعر کے لیے اپنے مجموعے کا یہ نام بہت موزوں ہے مگر کیا کیجیے نئے عہد کی غزل گائیک شمائلہ رحمت حسین نے اپنی نئی البم اس نام پر گویا معنون کر دی ہے۔شمائلہ رحمت حسین نے جون ایلیا کو گا کر اپنا نقش جما لیا تھا۔ اب اس البم میں اس نے علی عباس زیدی کی غزلوں اور کلام کا انتخاب کیا ہے۔علی عباس زیدی قاسمی صاحب کے فنون میں ابن حیدر کے نام سے چھپتے تھے۔تب وہ میرپور آزاد کشمیر میں مقیم تھے۔ان کا وطن مالوف الہ آباد تھا۔ ظالم یوگی ادیہ ناتھ نے اس عظیم شہر کا نام تبدیل کر کے فراق اور مصطفی زیدی کی روح گھائل کی ہے۔مگر جب وہاں رہنے والے مسلمانوں کا جسم لہو لہو ہے تو روح پر بھی زخم لگانا ضروری ہوتا ہے۔علی عباس زیدی کو الہ آباد سے مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی ہجرت نے انہیں جس شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا تھا اسے شاعری کے گل مہر نے ہی مندمل کیا تھا۔الہ آباد ، ڈھاکہ، کراچی اور کشمیر کہیں جائے قرار نہ تھی کوئی جائے امان نہ تھی۔ہمارا یہی کوئی بیس بائیس کا سن تھا کہ ان کے ہاتھ پر ادبی بیعت کی۔ ادب کی بیعت بھی روحانی مشکلیں اور روحانی منزلیں آسان کرتی ہے۔تب وہ شعر فہم تھے شعر گو نہیں۔ صائب کے شعر کی عملی تفسیر: صائب دو چیز می شکند قدر شعر را تحسین ناشناس و سکوت سخن شناس دائرہ نوبنو کی محفلیں اور علی عباس زیدی کی داد۔پنجاب کے شعرا کشمیر کی جانب کھنچے چلے آتے تھے۔ایک اعلٰی افسر تو تھے ہی اور پھر گنگا جمنی وضعداری شخصیت پر وہ رنگ چڑھا کہ ایک دنیا فریفتہ ہوئی اور اب تک ہے۔ لوکل شعرا کو گاڑی پر لے آنا اور رات گئے انہیں واپس پہنچوانا ان کا گویا فرض تھا مہمان شعرا کا قیام طعام الگ۔ بچوں کے لیے ادبی تقریری مقابلہ جات کے ذریعے نوخیز ذہنوں میں انسان کی فضیلت کی جوت جگائی۔کبھی افسانہ لکھے کرتے تھے شاعری کی طرف آئے تو ڈھلتی رات کے سناٹے میں جیسا مجموعہ آیا۔تین ہونہار صاحب زادگان کوئی موتیوں کی لڑی تھے اب وہ لڑی بکھری کہ شعر یاد آتا ہے: میرا خاندان نہیں مکان نہیں رہا میرا اس گلی میں کوئی نشان نہیں رہا کشمیر والا گھر خواب ہوا ان صاحبزادوں نے علی عباس زیدی کی البم کی ریلیز کا اہتمام کیا۔منجھلے جَون اس البم پر دوہزار بیس سے کام کر رہے تھے۔چھوٹے عزیز از جان یاور جو ایک اعلی مصور تھے، نے گرافک ڈیزائننگ کی۔اس پر گلوکارہ شمائلہ رحمت حسین کی نئے آہنگ میں غزل سرائی نے البم کو سہ آتشہ کر دیا ہے۔اس کی رونمائی کے وقت احد علی کے سوال و جواب کے سیشن میں شمائلہ کا کہنا تھا یہ غزلیں ترقی پسند مزاج کی حامل تھیں لہذا انہیں اس کو کمپوز کرنے میں تین سال صرف ہوئے۔اس رونمائی میں سرمد کھوسٹ، کنول کھوسٹ؟ سحر گل خان اور امریکہ اور جرمنی سے آئی ہوئیں دانیہ علی اور صالحہ علی نے شرکت کی۔ یہ غزل گائیکی کا نیا انداز ہے غزل گائیکی میں شمائلہ رحمت حسین نے اساتذہ گلوکاروں کی روش سے انحراف کیا ہے۔مہدی حسن، نذر حسین اور غلام علی کا سا گانا اور قسم کا درد سر ہے یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔زمانہ بدلا اس کے رنگ و آہنگ تبدیل ہوئے ،غزل گائیکی کا یہ نیا موڑ ہے۔اس میں وہ راگ منتر نہیں نہ راگ کا منتر ہے۔ یہ الگ ذائقہ ہے۔الگ شناخت ہے۔فلم کی گائیکی تبدیل ہوئی اس کے گیت نگار تبدیل ہوئے ساحر، شکیل اور تنویر نقوی لیجنڈ ہوئے۔ان سا نہ کبھی کوئی آیا ہے اور نہ آئے گا۔نوجوان نسل اپنی زبان میں بات کرنا چاہتی ہے۔یہی کچھ شمائلہ رحمت حسین نے کیا۔وہ سارا کام گٹار پر کرتی ہیں۔وہ سر میں ہے مگر اس میں سر زیریں قوت کی طرح موجزن ہے، بظاہر نہیں ہے۔ اس گائیکی کو نئے ذائقے کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جون ایلیا کہ یہ غزل کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو میں اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو ہمارا علی عباس زیدی اور ان کی آل اولاد سے بیالیس سالہ پرانا تعلق ہے۔ یہ تعلق نہیں ایک رشتہ ہے۔البم کے افتتاح پر بہت سارے فنکاروں کے علاوہ زیدی صاحب کے صاحب زادے مظفر زیدی اور ان کے بچوں نے شرکت کی۔یہ ایک یادگار شام تھی۔اس البم کا نام ’’گل مہر سے‘‘ ہے۔گل مہر دھوپ کی شدت میں کھلتا ہے۔ علی عباس زیدی کی طرح ان کے بچوں کی طرح مظفر کی طرح جون کی طرح اور یاور کی طرح دانیہ علی اور صالحہ علی کی طرح۔اس البم کو علی عباس زیدی کے مجموعے کی اشاعت ِ ثانی کہنا زیادہ مناسب ہے۔علی عباس نے کشمیر میں پوری ایک نسل کی ادبی پرورش کی۔ان کا گھر ایک دانش کدہ تھا جہاں ادب اور اس کے نام لیواؤں کی گویا حکمرانی تھی۔کالج کے پروفیسروں سے لے کر اساتذہ شعرآ کا دوسرا گھر تھا۔یہ نظر کا فیضان ہے کہ نظر کا ایک مکتب ہے اسی مکتب کی دین ہے یہ البم یہ جون اور یاور کی کاوش یہ شمائلہ کی گائیکی اور یہ چند محبت اور عقیدت کی سطریں۔