کو ئٹہ شہر کی ایک قوم پرست جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پردوبارہ دو نشستوں کیلئے میدان میں ہوگی اور امکان ہے کہ ان دونوں نشستوں پر وہ اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بڑی پارلیمانی جماعتوں میں وفاق پرست سیاست کرنے والی جماعتوں ن لیگ ،جے یو آئی ف ،پیپلزپارٹی، بی اے پی نظر آتی ہیں۔ اس کے بعد نیشنل پارٹی، پی کے میپ، بی این پی مینگل اور ایچ ڈی پی اور جے ڈبلیو پی ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بننے کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ وزارت اعلٰی کے ممکنہ امیدوار کون ہونگے۔ اگر ن لیگ پر نظر دوڑائیں تو خواہش مندوں کو چھوڑ کر امیدواروں میں جام کمال اور نواب چنگیز مری اس دوڑ میں ہوسکتے ہیں ۔اگر سرفراز بگٹی ن لیگ کا حصہ ہوتے تو پھر وہ بھی اس فہرست کا حصہ ہوسکتے تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں بھی خواہش مندوں کو چھوڑ نوا ب ثناء اللہ زہری کے ساتھ سردار سرفراز ڈومکی، ظہور بلیدی اور نواب زادہ سیف مگسی اگر الیکشن لڑے تو اس صف میں کھڑے ہونگے۔ جے یو آئی ف کے پاس نواب اسلم رئیسانی موجود ہیں اور اگر مولانا غفور حیدری چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی محبت سے قلات یا کو ئٹہ سے منتخب ہوئے جسکے امکان بظاہر نہ ہونے کے برابر ہیں تو وہ بھی خواہش مند ہونگے ۔ وہ کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ایک بار کوئی مولوی بھی بلوچستان کا وزیر اعلٰی ہونا چاہئے۔ جسکے ابھی تک امکانات کم ہی لگتے ہیں اور بی اے پی نے اپنا وجود برقرار رکھاہے تو یہاں چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اونواب زادہ طارق مگسی اور کیپٹن ر جان جمالی موجود ہیں۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں پر وفاقی جماعتیں مہربان ہوئیں تو پھر سردار اختر مینگل یا ڈاکٹر مالک بھی میدان میں ہونگے ۔انکی وزارت اعلیٰ زرداری نواز او ر مولانا کی مرہون منت ہوگی۔ بلوچستان میں وزارت اعلٰی کے امیدواروں اور خواہش مندوں کے درمیان کچھ سرپرائز امیدوار بھی میدان ہونگے جہاں ن لیگ کیلئے جام کمال اہم ہونگے وہیں الیکشن لڑنے کی صورت میں سرفراز بگٹی بھی انکے لئے چیلنج ہونگے۔ پیپلزپارٹی سے وزارت اعلٰی کے خواہشمندوں کیساتھ مفاہمت کے بادشاہ کے دوست گزین مری ایک سرپرائز پیکج ہونگے۔ بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اکاون جنرل نشستوں پر موجود امیدواروں میں جو جیتے گا اس میں ہر شخص پہلے وزارت اعلیٰ اور پھر وزارت کا خواہش مند ہوگا۔ بلوچستان کے بنیادی مسائل کا حل ان منتخب نمائندوں کی ترجیح ہو یا نہ ہو اپنے علاقائی مفادات کے ساتھ دیگر فوائد انکی ترجیح ضرور رہے ہیں، یہ وقت ثابت کرچکا ہے۔ بلوچستان کو درپیش چیلنجز میں ہر چیلنج کو عبور کرنے کیلئے سیاسی اونر شپ کی ضرورت ہے آنے والی حکومت کس جماعت کی ہوگی، کونسی شخصیت زرغون روڈ پر وزارت اعلٰی کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگی، اسکا فیصلہ ہونے سے قبل پہلا سوال یہ ہے کہ جس بھی جماعت کی حکومت ہو کیا وہ بلوچستان کے بنیادی مسائل کو حل کرسکتی ہے یاحل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے؟ اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا سیاسی جماعتیں ماضی میں اقتدار میں نہیں رہیں اور اگر رہی ہیں تو کیا انہوں نے بلوچستان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے؟ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں گزشتہ کم از کم دو دھائیوں سے باری باری اقتدار کی مسند پر فائز ہوچکی ہیں لیکن آج بھی بلوچستان کا چرواہا، ماہی گیر ،کسان ،کان کن، مزدور بد حال ہے ۔ ڈی سی ڈی پی او ریاست کے بجائے علاقے کے منتخب ایم پی اے، ایم این اے کے ملازم کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ریاست کو تمام پارلیمانی فریقین نے گھیر رکھا ہے۔ ہر سیاسی فریق اپنی باری پر موقع ملتے ہی ہاتھ صاف کرکے چلتا بنتا ہے۔ جب تک اقتدار ہے تب تک زبان گنگ رہتی ہے۔ اقتدار کے خاتمے کے بعد چند سال کی گوشہ نشینی اورپھر محرومیوں اور مداخلت کا رونا گانا شروع ہوچکا ہوتاہے یہ آنے والے انتخابات بھی ماضی سے مختلف نہیں ہونگے۔ نئی اسمبلی بھی ماضی سے مختلف نہیں ہوگی، نہ قائد ایوان بدلے گا نہ کابینہ میں کوئی ایسا نام ہوگا جس کے قابل فخر کارنامے ہوں۔ بلوچستان کے بنیادی مسائل کیا ہیں سب سے پہلے اور بنیادی انسانی مسئلہ ہے لاپتہ افراد کا۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جسے بھرنے کیلئے سیاسی جماعتوں نے کبھی کوئی ذمے داری نہیں دکھائی۔ اس معاملے پر لواحقین اور ریاست کے علیحدہ علیحدہ بیانیئے ہیں۔ ان دو فریقین کے بیچ میں سیاسی قیادت ثالث کا کردار ادا کرسکتی ہے جو نہیں کررہی۔ لیکن اگر اس مسئلے کو حل کرنا ہے تو ریاست اور لواحقین کے بیچ میں سیاسی قیادت کو ثالث بننا پڑیگا۔ دوسرا مسئلہ ہے کرپشن۔ پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں میں رقم کی خورد برد ہر جگہ ہوتی ہے لیکن جتنی خورد برد بلوچستان میں ہوتی ہے اسکا مقابلہ پورے پاکستان میں کوئی نہیں کرسکتا ۔ اس کرپشن کی روک تھام کیلئے ستو پی کر سوتے نیب، اینٹی کرپشن کو خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا ۔جب تک کرپشن پر بلوچستان میں سیاستدان، افسر شاہی اور کنٹریکٹر کو سزائیں نہیں ہوتیں بلوچستان کے فنڈز کرپشن کی نذر ہوتے رہینگے۔ تیسرا مسئلہ ہے بیڈ گورننس۔ بلوچستان میں ایک حلقے میں کامیاب امیدوار پچاس ہزار ووٹ لیکر حلقے کے لاکھوں لوگوں کا استحصال کرتا ہے کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مقامی انتظامیہ کی تقرری اسکے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جونیئر افسران کو ایڈیشنل چارج دیکر یہ منتخب نمائندے سارے جائز ناجائز کام نکلوالیتے ہیں۔ جب تک بلوچستان میں ڈی سی ڈی پی او سمیت انتظامی عہدوں پر تقرریاں میرٹ پر نہیں ہوتیں اس وقت تک گوررنس بہتر نہیں ہو سکتی اور کرپشن کا خاتمہ بھی ایک ایسا خواب ہے جسکی تعبیر ممکن نہیں ۔ چوتھا مسئلہ ہے ترقیاتی ماڈل اور ایم پی اے فنڈ کا ناسور جو بلوچستان کو کینسر جیسے موذی مرض کی طرح لاحق ہے، بلوچستان میں ترقی کا پہیہ گھمانے کیلئے ایم پی اے فنڈز کو ختم کرنا ہوگا۔ ترقیاتی سکیموں کا پچاس فیصد بلدیاتی نظام کو دینے کی ضرورت ہے جبکہ باقی ماندہ پچاس فیصد بڑی اجتماعی سکیموں کیلئے مختص کرنے کی ضرورت ہے، جس سے بین الاضلاعی رابطہ سڑکیں ڈویژن کی سطح پر صحت اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پہلے مرحلے میں یہ اجتماعی کام ڈویژن پھر ضلع ، تحصیل ، سب تحصیل اور یوسی کی سطح تک لیجایا جائے۔ اس وقت ایک فیصلہ بلوچستان کی ضرورت ہے جو بھی شخصیت وزیر اعلٰی ہو یا جس بھی جماعت کی حکومت ہو بلوچستان کے اہم مسائل لاپتہ افراد، بڑھتی ہوئی کرپشن، بیڈ گورننس کا خاتمہ کئے بغیر بلوچستان کا چہرہ اور اسکی حیثیت نہیں بدل سکتی ہے۔ بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی کی کنجی ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر اگلے پانچ سالوں میں بلوچستان صوبائی اسمبلی میں ایک ایسا وزیر اعلٰی یا کابینہ نہیں آسکتی جو بلوچستان میں دہکتی آگ کو بجھا سکے تو اس پارلیمانی سیاسی نظام پر فاتحہ پڑھ لیں تو بہتر ہوگا۔