میں نے انہیں بیٹی کی رخصتی کا کارڈ ویٹس ایپ کیا۔مجھے معلوم تھا کہ وہ تین چارروزتک کریکٹر ایجوکیشن کے سالانہ پروگرام میں بہت مصروف ہیں۔ویسے بھی دن میں دوچار بار بات کر لیتے تھے۔کارڈ ملتے ہی کال آگئی۔ ''سر ضرور حاضری ہوگی''گزشتہ دوماہ سے شوگر کنٹرول کرنے کے لیے پروٹین ڈائٹ پر تھے۔کہنے لگے ''مجھے کیا کھلائیں گے؟''میں نے بھی یکم نومبر سے ان کے ساتھ طے کیا تھا کہ دسمبر کے شروع تک پروٹین کھاؤں گا۔اس لیے جوابا''ان سے کہہ دیا کہ آپ روٹی چاول تو کھائیں گے نہیں البتہ پھر بھی ''رزق حلال''ہی ملے گا۔ ''ٹھیک ہوگیا'' یہ کہہ کر قہقہہ لگایا اوربات ختم ہوگئی۔عصر کے وقت پھر کال آگئی۔’'سر وقت ہو تو ہمارے پروگرام میں کچھ دیر کے لیے آئیں''۔کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن نے اس سال پورے ملک سے قرآن کی تعلیم دینے والوں کو اسلام آباد میں جمع کیا تھا۔اس اجتماع میں انہوں نے مختلف تربیتی پروگرامات کے ساتھ ساتھ کھیل اور تفریح بھی شامل کی تھی تاکہ لوگ ریلیکس ہو کر اپنے اپنے محاذپر جائیں۔میں نے اگلے روز نماز جمعہ کے بعد حاضری کا وعدہ کر لیا۔کاش! اگلے روز کی صبح طلوع ہی نہ ہوتی،میں گھر سے ہی نیت کر لی تھی کہ آج ان کی خواہش پوری کروں گا۔جانے ان کو کس بات کی جلدی تھی ،انہوں نے صبح ہی اپنے رب کی پکار پر لبیک کہہ دیا۔ایسی حالت میں کہ جب وہ قرآن پاک کو اس کی روح کے ساتھ پڑھنے،سمجھنے اور سمجھانے والوں کے درمیان کھڑے مسکرا رہے تھے اور آسمان کی بلندیوں سے رب کا فرشتہ اترا اور انہیں لے کر اللہ کے حضور لے گیا۔ میں اپنے وعدے سے پہلے ہی وہاں پہنچ گیا لیکن اب وہ پرسکون نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔پورے ملک سے آئے ہوئے قرآن کے حافظ اور قاری سسکیو ں سے رو رہے تھے۔ضبط کے بندھن ایسے ٹوٹے کہ ہر طرف ہچکیاں چیخوں میں بدلنے لگیں۔ملک بھر سے آئے ہوئے لوگوں کے وہم وگمان میں ہی نہیں تھا کہ ان کا ہنستا کھیلتا قائد چند ثانیوں میں انہیں مشن کے ساتھ وابستہ کر کے بھری جوانی میں جنتوں کی طرف لوٹ جائے گا۔کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن،ریڈ فائونڈیشن کے بانی محمود احمد کے زرخیز ذہن کی تخلیق ہے ،اس فائونڈیشن نے بہت مختصر مدت میں اکتالیس ہزار سے زائد قرآن سیکھنے کے ادارے قائم کیے،پچاس لاکھ سے زائد بچوں کو قرآن کی تجوید،ناظرہ اور مفہوم کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ اور سیرت رسول ﷺ کے ساتھ جوڑا ۔یہ وہ بچے ہیں جو سرکاری سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے رب کی کتاب کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔اس مقصد کے لیے اس وقت بارہ سو تربیتی ورکشاپس اور پچیس ہزار اساتذہ تیار ہو چکے ہی۔جب اس نوبل کاز کوشروع کیا گیا تو نثار بھائی برطانیہ کی ہیومن اپیل میں پاکستان کے ہیڈ تھے۔جہاں انہیں بہت زیادہ مراعات حاصل تھیں،بے شمار پراجیکٹس جاری تھے۔ایسے کسی لمحے جب ان سے قرآن پاک کی تعلیم اور کردار سازی کے لیے کیریکٹر ایجوکیشن کی آفر کی گئی تو انہوں نے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔تمام مراعات چھوڑکر اس کام میں ایسے لگے کہ پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔دنیا کی طلب ہم نے کبھی بھی ان کے اندر دیکھی ہی نہیں۔ مجھے نہیں یاد وہ مجھے کب سے سر کہہ کر پکارتے تھے۔جوابا'' میں بھی انہیں ''سر''ہی کہتا تھا۔جب بھی کوئی ''سر''کہنے کی وجہ پوچھتا تو کہتے ''یہ میرے استاد ہیں'' آج جب وہ منوں مٹی اوڑھ کر تا صبح قیامت سو گئے توماضی کی ایک ایک یاد فلم کی صورت چلنا شروع ہوگئی۔مجھے یوں لگا کہ وہ ہی میرے استاد ہیں۔ 1995 کا کوئی دن تھا۔نثار بھائی دھیر کوٹ سے آئے تھے۔ ننھے منے ۔ معصوم چہرے والے، آنکھوں سے ٹپکتی ذہانت ہر ایک کو متوجہ کر لیتی تھی میرے سا تھ ایسا ہی ہوا۔تب بچوں کے رسالے ''مجاہد'' کی ادارت میرے ذمے تھی۔وہ دھیرکوٹ کالج اور اسکولز کے بچوں کے لیے پرچے لے جاتے اور طلبہ وطالبات میں تقسیم کرتے پھر جب آتے ان پرچوں کی قیمت ادا کر جاتے۔ہماری دوستی کا اصل آغاز اس وقت ہوا جب وہ ریڈفاؤنڈیشن میں منتقل ہوئے۔میں ریڈ فاؤنڈیشن کے بورڈ کاممبر تھا۔تب ریڈ فاؤنڈیشن ابتدائی مراحل میں تھی ،کون کہہ سکتا تھا کہ بہت جلد یہ فاؤنڈیشن پرائیویٹ شعبے میں پاکستان میں سب سے بڑا تعلیمی نیٹ ورک بن جائے گی اور اس میں پڑھنے والے بے وسیلہ بچے اس معاشرے میں تعلیمی معیار کی بلندیوں تک پہنچیں گے۔ وہ جی جان کے ساتھ اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھتے۔بیرون ملک ہم نے آخری بار ترکی کا سفر کیا۔میرے لیے ترکیہ کا سفر نیا نہیں تھا لیکن اس بار نثار بھائی کے ساتھ ہم نے کچھ ایسے تاریخی مقامات دیکھے جو میرے وہم و گمان مین بھی نہیں تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر معاملے اور سفر کو گہرائی سے دیکھتے تھے۔اگر میں یہ کہوں کہ وہ دس برس بعد دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے تو ہر گز مبالغہ نہیںہے۔ اس طرح کے لعل و جوہرات ہمارے معاشرے میں اور بھی ہوں گے لیکن اس کے لیے جوہر شناس ناپید ہیں۔نفسانفسی کے اس دور میں ہم اپنی ذات سے ہٹ کر دائیں بائیں نہیںدیکھتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمار ے لعل وجواہر پر گرد پڑی ہے اور معاشرہ پستی کی طرف جا رہا ہے۔ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نظر پڑتی ہے تو اپنی اولاد اورقبیلے پر۔سچی بات یہ ہے کہ نثار جیسے ہیروں پر ان سیاست کاروں اور حکمرانوں کی ہزاروں اولادیںقربان ہوں۔اس معاشرے کے ہزاروں بے وسیلہ اور یتیم بچوں کاسہارانثار صابر جیسے لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ایسے لوگ محض ایک تحریر کے حق دار نہیں ہوتے ان پر معاشرہ کتابیں لکھتا ہے۔اللہ جی نے انہیں خوب صورت تو بنایا ہی تھا لیکن شاندارسیرت کو ان کے اندر ایسے سمو دیا تھا وہ پہاڑی کاچراغ اور مٹی کا نمک بن گئے۔بہار ،خزاں ،سرما گرما کے موسم آتے جاتے رہیں گے،یہ دنیا نام ہی مسلسل تبدیلی کا ہے۔ آج ہم ہیں تو کل کسی اور کا ہوگا۔سچ یہی ہے کہ سب نے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے پاس ایک روز چلے جاناہے۔اس جانے کا شاندار لمحہ بھی نثار کو ملا۔ ہم نے غسل دیا ،کفن پہنایا،تابوت میں ڈالا اور ہمیشہ کے لیے منوں مٹی کے سپرد کردیا۔