رات سو کر گزر گئی ۔ اس رات میں نے دو خواب دیکھے۔ ایک خواب میں فضل اللہ اور میں ایک دوسرے پر گولیاں برسارہے تھے ۔ ہم دونوں نے مختلف مقامات پر آڑلے رکھی تھی ۔ پھر میں نے دوسرا خواب دیکھا۔اس خواب میں مجھے ملا فضل اللہ کی لاش پڑی نظر آئی جس پر گدھ منڈلارہے تھے ۔ یہ دونوں خواب در اصل میری خواہش تھی جو سوتے میں میری آنکھوں میں در آئی تھی ۔ صبح ہونے پر جب میری آنکھ کھلی تو میں ایک پٹھان کو اپنے قریب دیکھ کر چونک گئی ۔فوری طور پر ذہن میں خیال آیا ، وہ یہ تھا کہ اس پٹھان کا تعلق تحریک طالبان ہی سے ہوسکتا ہے ۔ پٹھان میری طرف دیکھ کر ہنسا ۔ میرا منہ حیرت سے کھل گیا ۔ وہ آواز بانو کی تھی ۔ میں نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا ۔ وہ بانو ہی تھیں جنہوں نے پٹھان کا روپ دھارا تھا ۔ ان کے بال پگڑی میں چھپے ہوئے تھے ۔ چہرے پر داڑھی تھی ۔بھنویں کچھ بھاری کرلی گئی تھیں ۔ جسم پر لمبا کوٹ اور جینز بھی نہیں تھی ۔ انھوں نے اسی قسم کا لباس پہنا ہوا تھا جیسا طالبان تحریک کے لوگوں کے جسم پر ہوتا ہے ۔ ’’آ.....آ.....آپ! ‘‘میں ہکلا گئی ۔ بانو مسکرادیں ۔میں نے سونیا کو بھی مسکراتے دیکھا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دونوں مجھ سے پہلے بے دار ہوگئی تھیں ۔ بانو نے سونیا کے سامنے ہی اپنی وضع قطع بدلی تھی ۔ ’’یہ ضروری تھا صدف!‘‘ بانو بولیں ۔’’ ممکن ہے کہ اب ہم مرکز کے قریب ہوں ۔ اول تو ہمیں یہی کوشش کرنی ہے کہ کسی کی نظر میں نہ آئیں ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا اور ہمیں دیکھ لیا گیا تو دیکھنے والے کو دو پختون لڑکیوں کے ساتھ ایک پختون مرد بھی دکھائی دے ۔ ایسی صورت میں کوئی فوری ایکشن لینے کی بہ جائے وہ ذرا سوچے گا ۔ ہم اس وقت اسی مہلت سے فائدہ اٹھاسکیں گے ۔‘‘ میں نے ایک طویل سانس لی ۔’’ زور سے دل دھڑکا دیا آپ نے !‘‘ ’’کلی کرلو۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ سونیا نے ناشتا تیار کرلیا ہے ۔ میں ابھی تمھیںجگانے ہی والی تھی ۔‘‘ ناشتا کرکے تینوں نے اپنے حصے کا سامنا سنبھالا اور نیچے اترنا شروع کیا ۔ چڑھائی طے کرنے کی بہ نسبت یہ عمل بہت آسان تھا ۔ ڈیڑھ گھنٹے میں ہم خاصا نیچے اترگئے ۔ ’’زمین اب قریب نظر آرہی ہے ۔‘‘ میں نے خوش ہو کر کہا ۔ ’’تم اتنی خوش کیوں ہوگئیں لیڈر ؟‘‘ سونیا حیرت سے بولی ۔ ’’تم کو تعجب نہیں ؟‘‘ میں نے جواب دینے کی بہ جائے سوال کر ڈالا ۔’’ ہم نے بلندی تو بہت طے کی تھی۔ اس طرف ہمیں اتنا نہیں اترناپڑا!‘‘ ’’ہاں لیڈر! مجھے تعجب تو ہوا تھا ۔ میں آپ سے کہنے ہی والی تھی کہ آپ نے خوشی کا اظہار کردیا ۔‘‘ ’’علی محمد نے یہی بتایا تھا کہ پہاڑ چڑھنے کے بعد ہمیں بہت کم نیچے اترنا ہوگا ۔ ‘‘میں نے سونیا کو جواب دیتے ہوئے بانو کی طرف دیکھا جو زیر لب مسکراہٹ کا تاثر دے رہی تھیں ، جیسے ! انھیں بھی اس کا علم تھا۔ ’’زمین پر پہنچنے کے بعد ہمیں سیدھا آگے بڑھنا ہے یا دائیں بائیں مڑنا ہے ؟ ‘‘سونیا نے پوچھا ۔ ’’چند قدم سے زیادہ آگے بڑھے تو ہم مرکز کی مصنوعی چھت پر ہوں گے ۔ ‘‘ ’’ اوہ! ‘‘ سونیا کے منہ سے نکلا ۔ ’’لیکن ہمیں زمین تک پہنچنا ہی نہیں ہے ۔ مرکز کی چھت سے پچاس فٹ پہلے ہی ایک مسطح جگہ آئے گی جو دائیںاوربائیں جانب دور تک پھیلی نظر آئے گی ۔ ہمیں دائیں طرف کے راستے پر چلنا ہے ۔ تقریباً ایک میل چلنے کے بعد ہم مرکز کے ایک داخلی راستے پر ہوں گے ۔‘‘ ’’اور ۔‘‘ بانو بول پڑیں ۔‘‘ وہاں ہمارے لیے ایک خطرہ بھی ہوگا ۔‘‘ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ۔علی محمد نے مجھے اس خطرے کی نوعیت بھی بتادی تھی ۔ وہی سب کچھ میں نے بانو کو بھی بتادیا تھا لیکن اس خطرے کا جب ذکر کرنے والی تھی تو اچانک کسی وجہ سے وہ ذکر رہ گیا تھا ۔پھر مجھے بعد میں بھی خیال نہیں آیا کہ بانوکو بتادوں لیکن میرے بتائے بغیر ہی بانو کو اس کا علم تھا ۔ اسی طرح وہ مجھے حیرت زدہ کرتی ہی رہتی تھیں ۔ ’’خطرے کی نوعیت کیا ہوگی؟‘‘ سونیا نے پوچھا ۔ ’’دو طالبان اس کی نگرانی پر مامور رہتے ہیں ۔ چھ چھ گھنٹے بعد ڈیوٹی بدلتی رہتی ہے ۔ ‘‘ ان سے کس طرح نمٹا جاسکے گا ؟ فائرنگ کی آواز مرکز میں موجود طالبان کو چوکنا کردے گی ۔‘‘ ’’تیر چلانے پڑیں گے ۔ ‘‘ بانو نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ اب بھی ہے تیر کمان آپ کے پاس ؟‘‘ ’’ ہاں۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ میرے سامان میں ہے۔ کمان فولڈنگ ہے ، اس لیے سامان میں آسانی سے آگئی ۔‘‘ انھی باتوں کے دوران میں ہم نے چائے کا ایک ایک کپ پی لیا تھا ۔اس کے بعد پھر اترنا شروع کیا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہمیں مسطح جگہ نظر آگئی جو دائیں بائیں دور تک چلی گئی تھی ۔ یقینا طالبان نے پہاڑ کو کاٹا ہوگا ۔ اس کی چوڑائی اتنی تھی کہ اس پر کار بھی چل سکتی تھی ۔ ہم آخر اس ’’ پہاڑی سڑک ‘‘ پر پہنچ گئے ۔ بانو نے مجھے اور سونیا کو ایک مختصر لیکچر دیا ۔ اس لیکچر کے مطابق ہمیں آگے بڑھتے ہوئے پشتو میں زور زور سے باتیں کرنی تھیں ۔ وہ باتیں یہ ظاہر کرتیں کہ ہم شاید بھٹک کر اس طرف آگئے ہیں اور اب اس الجھن میں ہیں کہ آگے بڑھتے رہیں یا واپس لوٹیں ۔ مقصد یہ تھا کہ مرکز جانے والے راستے کی نگرانی پر مامور طالبان فوری طور پر ہمارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیں ۔ علی محمد کے بیان کے مطابق ہم دو سو قدم چلنے کے بعد ’’ مرکز‘‘ کے داخلی راستے پر پہنچ جاتے ۔ پھر ہم سو قدم ہی چلے ہوں گے کہ پشتو میں کسی نے ہمیں للکارتے ہوئے کہا ۔’’ رک جائو!‘‘ ہم رک گئے اور ہم نے دیکھا کہ دوطالبان ایک ٹیلے کی آڑ سے نکل کر ہمارے سامنے آگئے۔ان کے ہتھیاروں کا رخ ہماری ہی طرف تھا ۔ ان دونوں کی کمر کی پٹی میں خنجر بھی تھے جو چرمی خول میں رکھے گئے تھے۔ کیا صدف اینڈ کمپنی ان طالبان کو دھوکا دے سکی؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمایے!