چینی کہاوت ہے :اگر آپ مجھے مچھلی دیں گے، تو میں آج کھاؤں گا، اگر آپ مجھے مچھلی پکڑنا سکھائیں گے تو میں کل بھی کھا لوں گا۔ خود مختاری پیدا کرنے کے لیے وسائل کے ساتھ مدد فراہم کرنا ضروری ہے۔ انحصار سے بھاگنا چاہیے۔ 75برس بیت گئے ،ہم بیساکھیوں پر کھڑے ہیں ۔حکومت نے عوام کو آئی ایم ایف ،عرب امارات اور سعودی عرب سے قرض کی شکل میں مچھلیاں تو بے شمار دیں،مگر مچھلی پکڑنا نہ سکھائی ۔کاش! کوئی اس قوم کو خود انحصاری بھی سکھاتا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؓنے محمد بن عروہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا ،آپ ؒ نے شہر کی دہلیز پر کھڑے ہو کر استقبالی رعایا سے کہا: لوگو! یہ کپڑے اور سواری میری ملکیت ہے ،اس سے زیادہ لیکر لوٹوں تو خائن اور چور سمجھنا ۔گورنری کے مہ و سال پورے کر کے واپس لوٹے ،تو اسی دروازے پر رعایا سے مخاطب ہوئے ۔لوگو! یہ سواری میری ملکیت تھی ،میں واپس جا رہا ہوں ۔اس کے سوا میرے پاس کچھ نہیں ۔ رعایا ان کی جدائی میں آنسو بہا رہی تھی ۔حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس ذات نے میرے انتخاب کو انتخاب لاجواب بنا دیا ۔اہل پاکستان بھی اس لمحے کو ترس گئے ،جب وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہیں گے یا اللہ تیر اشکر ہے کہہ ہمارا انتخاب ،ہمارے دکھوں کا مداوا کر گیا ۔کسی حکمران کے لیے تو ابھی انتظار ہے مگر کئی شخصیات کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے ۔کہ اس شخصیت نے اپنے ذمہ داری کا حق ادا کر دیا ۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ان میں سے ایک ۔آپا نثار فاطمہ کا یہ فرزند رات اڈھائی بجے بھی کام کرتا نظر آیا ۔دو روز قبل میڈیا میں ایک اجلا س کی تصویر شائع ہوئی ،جس میں وزارت منصوبہ بندی وترقی رات 2:40بجے بھی کام کر رہی تھی ۔ دوسرا نام محکمہ اوقاف پنجاب کے سیکرٹری ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری کا ہے ۔جنہوں نے اس اورگنائزیشن کو پائوں پر کھڑا کر دیا ہے ۔انھوں نے چینی کہاوت کے مطابق ملازمین کو مچھلی پکڑنا سکھا دی ہے ۔مزارات کی آمدنی میں روزبروز اضافہ۔زمین نیلامی کی شکل میں سونا اگل رہی ۔ 40سے 50فیصد ریونیو میں اضافہ ۔ملازمین بھی انگشت بدندان ہیں کہ یہ اضافہ کیسے ہوا؟تو عرض ہے ۔عزم صمیم ،لگن اور محنت شاقہ سے۔مزارات پر قرآنی آیات والی چادروں پر پابندی، قیام اوقاف سے لیکر اب تک کا سب سے بڑا اقدام۔ پنجاب کے محسن کا یہ انتخاب بھی لاجواب ہے ۔ اپ گریڈیشن ، پرموشن۔25فیصد اضافے نے پرانے دکھوں کا مداوا کر دیا ۔ جس دن طالبِ علم نے یہ سوچا کہ وہ استاد کے بغیر صرف کتاب سے علم حاصل کر سکتا ہے، اس نے ناکامی کی پہلی سیڑھی پرقدم رکھ دیا۔ مسلسل سیکھتے رہنے ہی کامیابی ہے ۔جنہوں نے سیکھا،وہ کامیاب۔مکھی پر مکھی مارنے والے ، آج بھی اُسی جگہ ۔ پاکستان مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے ۔سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے ،ایسی ہے تنہائی ۔رونا چاہو تو آنسو نہ آئے ایسی ہے تنہائی ۔مگر اس تنہائی میں چین کے صدر شی جن پنگ نے 100 چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہدایت کی ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو دکھوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنی کشتی میں خود سراخ کرتے رہے۔ہم نے 1960کی دہائی میں پہلا موقع گنوایا، جب ہم آئندہ کا جاپان کہلاتے تھے مگر 1965ء کی جنگ کے بعد آگے نہ بڑھ سکے، دوسرا موقع 1991ء میں آیا، جب ہم نے سب سے پہلے معاشی اصلاحات جنوبی ایشیا میں متعارف کرائیں۔بدقسمتی سے 1990ئکی دہائی میں اقتدار کی میوزیکل چیئر شروع ہو گئی ،ہم اصلاحات میں پیچھے رہ گئے ۔اب اللہ نے سی پیک کی شکل میں تیسرا موقع فراہم کیا ہے۔اگر اسے بھی گنوا دیا، تو پھر داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔ اس وقت ملک جہاں کھڑا ہے، کوئی ایک لیڈر، کوئی ایک پارٹی یا کوئی ایک ادارہ یہ کہے کہ پاکستان کو اس دلدل سے تنے تنہا نکال سکتا ہے تویہ اس کا دماغی خلل ہو گا ۔اس وقت حزب اقتدار ،حزب اختلاف، اسٹبلشمنٹ، بیورو کریسی اور عوام کا اتحاد، مشترکہ حل ہے۔ ہمیں صرف بجٹ کی نہیں۔ 2050ء کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔وزارت منصوبہ بندی نے درست کہا کہ : پہلا ای ایکسپورٹ، دوسرا پالیسی، تیسرا ماحولیات، چوتھا توانائی اور پانچواں ای اکویلیٹی، ان پر عمل کر کے ہم اپنی معیشت بہتر بناسکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان نے چین سے 319.2 ملین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔بورڈ آف انویسٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق فروری اور مارچ 2023ء کے دوران پاکستان کو چین سے مزید 119 ملین ڈالر موصول ہوئے ۔ مالی سال 23-2022 کے پہلے نو ماہ کے دوران مختلف ممالک کی طرف سے 1,048.4 ملین ڈالرکی براہ راست سرمایہ کاری کی گئی، جس میں چین کا سب سے زیادہ 30.44 فیصد حصہ ہے۔ مالی سال 22-2021 میں چین 531.6 ملین ڈالر کے ساتھ پاکستان میں سرفہرست سرمایہ کار تھا، جو کہ دنیا کے مختلف ممالک سے پاکستان کو موصول ہونے والی مجموعی سرمایہ کاری کا 28.47 فیصد تھا۔اسی طرح مالی سال 21-2020 میں پاکستان نے چین سے 751.6 ملین ڈالر (41.3 فیصد) براہ راست سرمایہ کاری حاصل کی جبکہ مالی سال 2020اور مالی سال 2018-19میں چین نے پاکستان میں بالترتیب 130.8 ملین ڈالر اور 13.119 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی۔ 2022اور2021کی نسبت چین کی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے ۔سیاستدان اور معاشی ماہرین اس پر بھی غور کریں ۔بیورکریسی مقامی اور غیر ملکی سب سرمایہ کاروں کو دفاتر کے چکر ہی لگواتی رہتی ہے اور ان کے ہاتھ پکڑنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو بڑھایا جاتا ہے۔ نتیجتاً سرمایہ کار اس قدر زچ ہوجاتا ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ کہیں اور سرمایہ کاری کو ترجیح دیتا ہے۔ہمیں اس رویہ کو بھی تبدیل کرنا ہو گا ۔دوسرا ملک میں باہمی تعاون کا ماحول نہیں ۔ ایک وزارت دوسری وزارت سے اور ایک ادارہ دوسرے ادارے سے تعاون کو تیار نہیں۔ سارا کام ایڈہاک ازم پر چلتا ہے۔ اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سرمایہ کاری کی جگہ بیرونی امداد یا قرض مل جائے۔ اس وقت چین 22 ملکوں میں خصوصی معاشی زونز حکومتی شراکت داری میں بناچکا ہے۔اگر چین یہ کام کرتا ہے تو پاکستان کی معیشت کیلیے یہ گیم چینجز ہوگا۔ چین بہت بڑی حقیقت ہے۔چینی کہاوت ہے :ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہے۔اسی بنا پر وہ سڑکیں ،گوادر،معاشی زونز بنا رہا ہے ۔ایک دانشور نے کہا تھا :آپ لوگوں کے لئے اتنے نرم نہ بنیں کہ لوگ آپ کو نچوڑ دیں اور اتنے سخت بھی نہ بنیں کہ وہ آپ کو توڑ دیں۔ ٭٭٭٭٭