نماز عصر پڑھ کے مسجد سے نکلتے ہی میرے بیٹے زبیر نے میری انگلی مضبوطی سے پکڑ لی اور کھینچتے ہوئے کہنے لگا ’’آیئے پاپا میں آپ کو ایک چیز دکھاتا ہوں‘‘ نہ چاہنے کے باوجود اس کے ساتھ ہو لیا۔ وہ باپ ہی کیا جو بچے کی ضد کے آگے سر تسلیم خم نہ کر دے۔ کیمپس موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے آج سرسبز و شاداب ہے۔ درختوں کے پتوں اور شاخوں اور ٹہنیوں پر بہار کا سماں ہے۔ خزاں زدہ پیڑوں میں بھی زندگی پیدا ہو گئی ہے۔ آسمان بھی فضا کے گردو غبار سے دھل دھلا جانے کی وجہ سے شفاف گہرا نیلا دکھائی دیتا ہے۔ ہم کولتار کی سیاہ چمکیلی سڑک پر چلتے گئے۔ زبیر نے میری انگلی چھوڑی نہیں تھی۔ اسے شبہ تھا شاید کہیں میں واپس نہ چلا جاؤں۔ مکانوں کا سلسلہ تمام ہوا تو عقبی میدان نظروں کے سامنے آ گیا جو دور تک ہری بھری گھاسوں سے نہایت خوشنما دِکھ رہا تھا۔ میدان میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تنوومند چمکدار جسموں والے مضبوط گھوڑے سر جھکائے گھاس چرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ’’یہ دیکھئے بابا۔۔۔‘‘ زبیر نے اشارہ کیا، کتنے زبردست ہارسز ہیں۔‘‘ وہ بہت اکسائٹیڈ تھا۔ ’’واقعی یہ تو شاندار گھوڑے ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے گنا تو تعداد میں چھ تھے۔ ’’آہا، ان کی پونی کتنی خوبصورت ہے۔‘‘ ’’پونی نہیں، ٹیل، یہ دمیں ہیں، ان سے گھوڑے مکھیاں اور مچھر اڑانے کا کام بھی لیتے ہیں۔‘‘ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ پیچھے جھاڑیوں سے ایک کسرتی بدن کا صحت مند آدمی نکل آیا۔ اس نے نہایت اخلاق سے مصافحے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا: ’’ان کا سائس ہوں‘‘ اس نے خوش مزاجی سے کہا۔ اس نے میری ہتھیلی کو اتنے زور سے دبایا کہ ہڈیاں کڑ کڑا اٹھیں۔ زبیر نے اشارہ سے کچھ کہنا چاہا، میں نے اپنے کانوں کو اس کے منہ کے قریب کیا: ’’یہ انکل کون ہیں؟‘‘ ’’یہ سائس ہیں، گھوڑوں کے رکھوالے، دیکھ بھال کرتے ہیں۔‘‘ ’’رینجرز کے گھوڑے ہیں بیٹے‘‘ سائس زبیر سے مخاطب ہوا۔ ’’پاپا! میں رائیڈنگ کرلوں۔‘‘ ’’نہیں زبیر! گر جاؤ گے، چوٹ لگ جائے گی‘‘ ’’نہیں نہیں۔۔۔ میں بیٹھوں گا۔ رائیڈنگ اچھی لگتی ہے مجھے۔‘‘ زبیر مصر تھا۔ ’’کلفٹن پر بیٹھ تو چکے ہو۔۔۔‘‘ میں نے یاد دلایا، پچھلے ماہ ہم ساحل پہ گئے تھے، جہاں ایک سندھی لڑکا اپنا مریل سا گھوڑا لیے آ گیا تھا۔ گھوڑے کی حالت بتاتی تھی کہ پیٹ بھر غذا بھی نہیں دی جاتی۔ زبیر اس پہ بیٹھا تو سعادت مندی سے سر جھکائے کھڑا کاہلی سے پلکیں جھپکاتا رہا۔ زبیر نے ایڑی لگا کے بھگانا چاہا لیکن بدن میں بھاگنے کی تاب و توانائی ہی نہیں تھی تو بھاگتا کیسے۔ ’’وہ کلفٹن والا گھوڑا، وہ تو پاپا بالکل ہی پھُوس تھا۔‘‘ زبیر کے اندر سوئی ہوئی تلخی جاگنے لگی۔ میں نے حوصلہ بڑھانے کیلئے کہا: ’’واقعی زبیر! گھوڑے تو یہ ہیں۔ اصیل ہیں، اسٹرونگ، چمکتے لوہے کے بنے لگتے ہیں۔‘‘ وہ خوش ہو گیا۔ کلفٹن کا مریل گھوڑا حافظے سے اتر چکا تھا۔ مجھے یاد آیا اس روز ساحل پہ ایسے کتنے گھوڑے تفریح کیلئے آنے والوں کو اپنی پیٹھ پہ بٹھا کے ان کی دلبستگی کا سامان کرنے پہ مامور تھے۔ یہ ملازم گھوڑے اپنے مالکان کے کماؤ پوت تھے۔ اور جو کماتا ہے، کماتے کماتے، کھلاتے کھلاتے ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی سائس نہیں ہوتا جو اس کی دیکھ بھال کرے، اسے ہری بھری چراگاہ میں لے جائے اور آزاد چھوڑ دے، جہاں سے جتنا چاہیں چر لیں، اور جو بیماری ہلکی پھلکی بھی ہو جائے تو ایسے اب کہاں کہ ڈنگر ڈاکٹر علاج معالجے کیلئے آجائیں۔ غریبوں کے گھوڑے بھی غریب ہی ہوتے ہیں۔ سیکھنے میں بھی اپنے مالک ہی جیسے، مسکینی چھائی ہوتی ہے سارے وجود پہ۔ زبیر کو وہ مسکین، یتیم سا کلفٹن کا گھوڑا پُھوس لگا۔ رینجرز کے گھوڑے جیسا نہیں کہ زبیر کے سوار ہوتے ہی پشت پر سرپٹ دوڑ پڑے گا اور دوڑتے دوڑتے فضا میں اڑ جائے گا اور اڑتے اڑتے دودھیا بادلوں میں گم ہو جائے گا۔ غریب کا گھوڑا غریب ہی کی طرح ہوتا ہے کہ زمین پہ چلتے ہوئے قدم من من بھر کے ہو جائیں جبکہ طاقت ور کا گھوڑا بھی ویسا ہی طاقت ور ہوتا ہے۔ ملک میں کمزور بہت ہیں اتنے کہ جمع ہو جائیں، اکٹھے ہو جائیں تو ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دیں، ہر طرف سر ہی سر۔ بڑی سے بڑی طاقت بھی اس سمندر کے آگے تھر تھر کانپ اٹھے اور یہی کمزور، بے سہارا، بنا والی وارث کے بھوکے لوگ، لکڑیوں کے مضبوط گٹھے کی طرح بکھر جائیں۔ ہر لکڑی اکیلی اکیلی، ایسی ہی یتیم، لاچار کلفٹن کے مریل گھوڑے کی طرح۔ ’’پاپا! بتائیں نا۔ انکل سے کہیں مجھے بٹھا دیں۔ زبیر نے چونکا دیا۔ میں ساحل کے مریل گھوڑوں کی بابت سوچنے میں گم تھا۔ ذائقہ زبان کا تلخ سا ہو گیا تھا، جھنجھلا کر کہا: ’’زبیر۔۔۔ یہ عوام کے گھوڑے نہیں۔ ان پر ہم تم نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ ’’آؤ چلتے ہیں۔ اپنے پُھوس گھوڑوں کو مضبوط بنائیں۔‘‘ زبیر کچھ نہ سمجھا۔ وہ سمجھ جائے گا جب میری عمر کو پہنچے گا۔ جو کمزور ہیں اور جو مضبوط ہیں اور جو ان میں فرق اور فاصلہ ہے۔ سمجھ میں آجائے گا اس کے بھی۔ مگر اس کے اور میرے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ پُھوس گھوڑے کی طرح، پُھوس عوام ہی کو سمجھانا ہو گا۔ اگر انہیں اور پھُوس ہونے سے بچانا ہے تو۔ زبیر اگر سمجھ نہیں پایا تو اس لئے کہ اسے کمزور اور طاقت ور کا فرق نہیں معلوم۔ اسے یہ بھی نہیں پتا کہ انسانوں کی طرح گھوڑوں کا بھی ایک طبقہ ہوتا ہے، مراعات یافتہ طبقہ، جن پر زندگی آسائشوں کے سارے دروازے کھول دیتی ہے۔ انہیں ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسانوں ہی کی طرح گھوڑوں کا ایک مظلوم طبقہ ہوتا ہے جو تانگے میں جتا ہوتا ہے، جو اپنے مالک کے چابک کھاتا اور سواریوں کو ان کی منزل مقصود پہ پہنچاتا ہے۔ ان کی پیٹھوں پہ مکھیاں بھنبھناتی ہیں جنہیں وہ اپنی دم سے اڑاتا رہتا ہے۔ ان کے نزدیک جاؤ اور ان کی گہری سیاہ آنکھوں میں جھانکو تو تم ان میں ایک نمی سی پاؤ گے، اداسی کی نمی میں تیرتی ہوئی آنکھیں۔ ہاں اس شام کلفٹن کے پھُوس گھوڑے کی آنکھوں میں یہی کچھ میں نے دیکھا تھا اور اب زبیر رینجرز کے جن گھوڑوں کے پاس مجھے لے کر آیا تھا وہ زندگی سے کیسے بھرپور تھے۔ شباب ان پر ٹوٹا پڑتا تھا، بدن چمکیلا اور مضبوط کسا ہوا، آنکھوں میں دن اور راتیں جاگتی تھیں۔ زبیر ان پہ سواری کیلئے مچلتا تھا اور میں اسے یہ سمجھانے میں ناکام تھا کہ یہ خاص الخاص گھوڑے ہیں اور ہمارا تمہارا شمار عوام میں ہوتا ہے اور عوام کا ان گھوڑوں پہ کوئی حق نہیں۔ تمہیں اگر سواری گانٹھنی ہے تو کلفٹن کے پھُوس گھوڑوں تک جانا ہو گا۔ وہ سو پچاس روپوں کے عوض ساحل پہ دور تک سیر کرا دیں گے کہ ان کا یہی نصیب ہے۔ ہاں بات ساری نصیب ہی کی ہے۔ کچھ کے نصیب میں خوشیاں کامیابیاں اور عیش و عشرت اور بقیہ کی تقدیر میں دکھ، اذیتیں اور مصیبتیں بھگتنا لکھ دیا جاتا ہے جس سے کسی حال میں مفر ممکن ہی نہیں ہوتا۔ میں اور زبیر وہاں سے لوٹے تو وہ بہت دل گرفتہ تھا۔ اسے تکلیف تھی کہ وہ اتنے شاندار گھوڑوں میں سے کسی ایک پر بھی سواری نہ کر سکا۔ پھُوس عوام کے دلوں میں بھی ایسی کتنی ہی تمنائیں جنم لیتی، اور پھر اندر ہی اندر خون ہو جاتی ہیں۔ یہی عوام کی تقدیر ہے جس سے کون لڑ سکا ہے۔ وہ گھوڑے آج بھی چراگاہوں میں ہری ہری گھاس پہ منہ مار رہے ہیں اور پھُوس گھوڑے کلفٹن کے ساحل پہ منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور ان پر سواری گانٹھے!