Common frontend top

اوریا مقبول جان


پاکستان کی خوشحالی اور بقا کیلئے


اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کو انگریز کے بنائے ہوئے چار صوبوں کو تقریباً آزاد وحدتوں کی صورت تشکیل دینے اور یوں پاکستان کی نظریاتی وحدت پر ضرب لگانے کا عمل اچانک سے نہیں ہو گیا۔ یہ گذشتہ نوے سالوں کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ روس میں 1917ء میں جب کیمونسٹ انقلاب آیا اور لینن نے پرولتاریہ کی آمریت قائم کر دی، تو 1919ء میں دُنیا بھر کی کیمونسٹ تحریکوں کی ایک تنظیم قائم کی گئی جس کا نام ’’کیمونسٹ انٹرنیشنل‘‘ تھا جسے "Comintern" کہا جاتا تھا۔ اس تنظیم کے تحت 1920ء میں آذربائیجان کے شہر باکو میں مشرقی ممالک
جمعه 31 دسمبر 2021ء مزید پڑھیے

پاکستان کی خوشحالی اور بقا کیلئے

جمعرات 30 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
پاکستان کے قیام کی تحریک جن بنیادوں اور نظریات کو لے کر آگے بڑھی اور فتح سے ہمکنار ہوئی وہ اپنے زمانے کے مروّجہ سیاسی و معاشرتی نظریات سے بالکل مختلف، الگ اور جدا تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد پوری دُنیا جن چار بنیادی وجوہات کی بنیاد پر قومی ریاستوں (Nation States) میں تقسیم کی جا رہی تھی وہ (1) علاقہ(2) نسل (3) رنگ اور (4) زبان تھیں۔ ان میں سب سے اہم نظریہ علاقہ یعنی مادرِ وطن تھا، جسے آج بھی عرفِ عام میں کسی ’’قوم کا علاقائی دائرۂ اختیار‘‘ (Territorial Jurisdiction of a nation) کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے


مغرب کی تصدیق کے منتظر دانشور

پیر 27 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
میرا پڑائو سارناتھ کے اس مقدس مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا جہاں گوتم بدھ نے اپنے کئی سالہ بن باس سے واپسی پر پہلا خطاب کیا تھا۔ اس جگہ پر برصغیر کے واحد بدھ حکمران اشوک نے سرخ اینٹوں سے 144 فٹ بلند اور 92 فٹ قطر والا بہت بڑا سٹوپا (Stupa) تعمیر کیا تھا۔ آج وہاں پر یہ عظیم زمینی گنبد نما عمارت تو موجود ہے، لیکن اس کے اردگرد بدھ بھکشوئوں کے مدرسے اور عمارات زمین بوس کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ وہ شہر جو کبھی بدھ مت کی تعلیمات کا امین ہوا کرتا تھا،
مزید پڑھیے


کتنا وقت انسانیت کے پاس باقی ہے ……(2)

اتوار 26 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
دجلّہ و فرات کی وہ سرزمین جسے انسانی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے، ہمورابی کا زمانہ جو 1792ء سے 1750ء قبل مسیح تک پھیلا ہوا تھا، اس دَور میں پوری دُنیا کا دارالحکومت تصور کی جاتی تھی، آج یوں لگتا ہے جلد ہی ایک ایسے صحرا میں تبدیل ہو جائے گی، جیسا صحرا کئی ہزار سال پہلے افریقہ کے سرسبز میدانوں کو چاٹ گیا تھا اور وہاں سے قدیم ترین انسان ہجرت کر کے پوری دُنیا میں پھیلے تھے۔ دجلّہ اور فرات کے دونوں دریا ترکی سے شام میں داخل ہوتے ہیں اور پھر عراق کو سیراب کرتے ہوئے
مزید پڑھیے


کتنا وقت انسانیت کے پاس باقی ہے

جمعه 24 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
ایک زمانہ تھا جب قیامت، دُنیا کے خاتمے اور سب کچھ فنا ہو جانے کی باتیں صرف مذہبی رہنما کیا کرتے تھے۔ دُنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جو اس کائنات کو فانی نہیں کہتا۔ کوئی اس کے خاتمے کے بعد ایک یومِ حساب، دوزخ و جنت پر ایمان رکھتا ہے اور کوئی اس بات کا دعویدار ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے نیک یا بَد اعمال کا صلہ اسی زندگی میں مل جائے گا یا پھر کئی ایک جنم ہوں گے جن میں وہ ایک جنم کی جزا و سزا اگلے جنم میں پائے گا۔ ایک سائنسی ذہن
مزید پڑھیے



عمران خان صاحب …! شاید یاد آ جائے

جمعرات 23 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
طالبان نے ابھی کابل فتح نہیں کیا تھا، لیکن امریکہ کی رخصتی ہو چکی تھی اور بگرام ایئر پورٹ خالی کیا جا چکا تھا۔ امریکی شکست اور طالبان کی آمد آمد کے ماحول میں عمران خان صاحب لاہور تشریف لائے۔ ایک سلسلے میں میری ان سے ملاقات ٹھہری۔ سلسلہ انہیں کی جانب سے تھا، میری کوئی غرض و غایت اس میں شامل نہ تھی۔ گورنر ہائوس پنجاب کے ایک بڑے سے کمرے میں ان سے ملاقات ہوئی۔ یاد دہانی کیلئے عرض کر دوں کہ یہ جنابِ وزیر اعظم سے ان کے حجلۂ اقتدار میں داخلے کے بعد سے میری نہ
مزید پڑھیے


گوادر: قوم پرست قیادت کا ٹوٹتا طلسم (آخری قسط)

اتوار 19 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
گوادروہ ساحلی علاقہ ہے جسے مکران کے گچکی سرداروں نے امانت کے طور پر عمّان کے شہزادے سعید کو اس وقت واپسی کی شرط پر بخش دیا تھا جب وہ اقتدار کی کشمکش میں جلا وطن تھا۔ جب یہ گوادر1958ء میں پاکستان میں شامل ہوا تو وہاں پر رہنے والے صرف بیس ہزار افراد کی خوشی دیدنی تھی۔ وفاقی سیکرٹری کیبنٹ آغا عبد الحمید کراچی سے بحری جہاز پر جب گوادر پہنچے تووہاں پر موجود ماہی گیر اپنی کشتیاں لیکر جہاز کا استقبال کرنے گہرے سمندر میںگئے اور مچھیروں نے سمندر میں تیرتے ہوئے آغا عبد الحمید کے جہاز کو
مزید پڑھیے


گوادر: قوم پرست قیادت کا ٹوٹتا طلسم

هفته 18 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
انقلابات کی تاریخ کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ جب لوگ خود اُٹھ کھڑے ہوں، تو قیادت ان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ دُنیا کا بڑے سے بڑا انقلابی رہنما بھی تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتا،اگر اسے کندھوں پر اُٹھانے، اس کی تقریریں سننے اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے لوگ میسر نہ آتے۔ مشہور انگریزی محاورہ جو انہی انقلابات کی تاریخ رقم کرنے والے کسی گمنام مصنّف نے تحریر کیا تھا، اور اب زبان زدِعام بن چکا ہے، یوں ہے کہ "Leadership comes on the tides of the revolution" ، قیادت انقلاب کی
مزید پڑھیے


16 دسمبر …ہارا کون؟

جمعه 17 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
الیکشنوں کا آغاز ہوا تو شیخ مجیب الرحمان لاہور آیا۔ اسے دیکھنے کی خواہش مجھے لاہور لے آئی۔ گول باغ (موجودہ ناصر باغ) میں اس کا جلسہ تھا۔ مغربی پاکستان کے لوگ بھٹو کے سحر میں اسقدر گرفتار تھے کہ مجیب کا جلسہ ایک عام سے سیاسی رہنما کا جلسہ لگ رہا تھا، لیکن ایک ایسے رہنما کیلئے جس نے کئی سال بھارت کے ساتھ ساز باز کے الزام اور غداری کے جرم میں گزارے ہوں، پنجاب کے دل، لاہور جیسے شہر میں یہ خاصا بڑا ہجوم تھا۔ اس کی تقریر انتہائی غیر متاثر کن تھی۔ غالباً وہ اُردو میں
مزید پڑھیے


16 دسمبر …ہارا کون؟

جمعرات 16 دسمبر 2021ء
اوریا مقبول جان
شکست بہت المناک کیفیت کا نام ہے، خصوصاً اس وقت جب ہر کسی کی آنکھوں میں اس کا دُکھ پڑھا جا رہا ہو۔ سولہ دسمبر 1971ء وہ آخری موقع ہے ،جب میں نے اس قوم کو اجتماعی طور پر دُکھ اور کرب کے عالم میں دیکھا ہے۔ ہر کسی کیلئے یہ ناقابلِ یقین بات تھی۔ میرے لئے اس تجربے کی تلخی اس لئے بھی زیادہ تھی کہ میں نے ابھی شعور کی چند ہی منزلیں طے کی تھیں، اس سرزمینِ پاکستان سے جذباتی نہیں بلکہ عقلی طور پر محبت کرنا سیکھی تھی اور رموزِ مملکت و سیاست کو سمجھنے کی
مزید پڑھیے








اہم خبریں