تب ن لیگی قانون دانوں اور زعما کو یہ خیال شاید سوجھا نہ ہوگا ورنہ وہ کہہ دیتے کہ پانامہ کیس میں دستخط کرنے والے جج عظمت سعید شیخ یا اعجاز الاحسن کے دستخط ان کے پرانے فیصلے پر موجود دستخط سے میچ نہیں کرتے ،لہذا فیصلہ متنازع ہے اور اس پر عملدآمد ممکن نہیں ہے، مزید کہہ سکتے تھے کہ ہماری تشریح تو یہی ہے ، اگر کسی کو اعتراض ہے تو عدالت سے جا کے تشریح کرا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی پہلی سطر میں صاف صاف لکھا ہے کہ یہ فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا جا رہا ہے۔مگر ن لیگ کے موجودہ اور سابق وزیر قانون بضد ہیں کہ یہ چار تین کا فیصلہ ہے۔ کچھ دن پہلے سماعت کرنے والے نو رکنی بنچ کے فیصلے کے ساتھ یہ نوٹ لکھا گیا تھا کہ بینچ تحلیل کیا جارہا ہے اور نئے بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔ لہذا اس بات میں کوئی ابہام موجود ہی نہیں کہ فیصلہ کرنے والا بنچ پانچ رکنی تھا، انہی پانچ ججز نے کیس کو سنا ،دلائل پر ریمارکس دیے،مزید سوالات کیے ، معاملے کو سمجھا اور دو دن کی کارروائی کے بعد فیصلہ دیا۔ حیرت کی بات ہے کہ ان جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کو بھی فیصلے کا حصہ مانا جا رہا ہے جنہوں نے کیس سنا ہی نہیں ۔ کیس کی سماعت کے شروع میں ہی پی ڈی ایم کے وکلا کی جانب سے فل کورٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جب جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بینچ سے نکال دیا گیا تو فاررق ایچ نائیک اورپی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے وکلا کی جانب سے عدالت میں کہہ دیا گیا کہ ہم فل کورٹ کے مطالبے سے دستبردار ہو رہے ہیں اور اسی بینچ کی جانب کے سامنے دلائل دیں گے۔صرف فاروق ایچ نائیک نے اس کیس کے ناقابل سماعت ہونے کے حوالے سے دلائل دیے باقیوں نے تو یہ بھی نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل اپنے پورے دلائل صرف دو نکتوں پر دیتے رہے ، ایک یہ کہ انتخابات کی تاریخ دینا صرف اور صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور دوسرا یہ کہ اب انتخابات کا انعقاد نوے دن کے اندر اندر ممکن نہیں رہا۔فیصلہ آیا تو اندازہ ہوا کہ اٹارنی جنرل کے یہ دونوں دلائل رد ہو گئے ہیں ۔جب اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی نے میڈیا سے گفتگو کی تو ان دنوں نکتوں کو گول کر گئے اور کہنے لگے عدالت کا فیصلہ تو چار تین سے آیا ہے ۔ حالانکہ کمرہ عدالت میں انہوں نے بینچ کی تشکیل پہ کوئی سوال اٹھایا تھا نہ از خود نوٹس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے تھے۔ بعد میں وہ اچانک عدالتی فیصلے کی انوکھی تشریح کا حصہ بن گئے۔ فیصلے کے اصل پہلو کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے تمام ججوں نے آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کو لازمی قرار دیا ہے۔ یہی لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تھا اور یہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل تشریح ہے۔اگر نوے دن میں انتخابات کی عدالتوں کی رائے مان لی جائے تو ساری بحث خود بخود دم توڑ جائے گی۔ چند دن پہلے جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ دی تو بہت شور مچا کہ صدر نے آئینی اختیارات سے تجاوزکیا، کہا گیا صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی۔ وزیر اعظم نے فرمایا تھا صدر کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔نہ صرف صدر کے فیصلے پر تنقید کی گئی تھی بلکہ ان کے حکم پر عملدرآمد بھی نہیں کیا گیا تھا۔ مگر عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف صاف کہہ دیا کہ صدر نے آئینی طور پر بالکل صحیح قدم اٹھایا تھا اور ان کی دی گئی تاریخ پر عمل ہونا چاہے تھا۔سپریم کورٹ نے اب بھی صدر ہی کو پنجاب کے انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا ہے۔ فاروق نائیک سینئر ترین دکلا میں سے ایک ہیں ۔مگر اپنی ایک دلیل سے انہوںنے کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص کو چونکا دیا۔ کمرہ عدالت میں کھڑے ہو کر انہوں نے فرمایا آئین کے مطابق نوے دن میں انتخابات نہیں کرانے ہوتے بلکہ نوے دن میں انتخابات کی تاریخ دینی ہوتی ہے۔اور چونکہ ابھی نوے دن ہوئے ہی نہیں لہذا آئین کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا اگر نواسی ویں دن بھی انتخابات کی تاریخ دے دی جائے تو بھی آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ لہذا نوے دن گزرنے کا انتظار کیا جائے اگر نوے دن تک انتخابات کی تاریخ نہ دی جائے تو پھر یہ کیس سنا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے رویے پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے شدید تنقید کی اور کہا پندرہ پندرہ دن کے نوٹس دیے جارہے ہیں ، لمبی لمبی تاریخیں دی جا رہی ہیں یہ کوئی سول سوٹ نہیںہے جو اس معاملے کو اتنا لٹکایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی سخت تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف خط و کتابت کرنا ہے، اگر گورنر نے تاریخ نہیں دی تو الیکشن کمیشن نے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے ،سپریم کورٹ سے فیصلہ آئے تیس گھنٹے گزر چکے ہیں۔ ابھی تک الیکشن کمیشن صرف مشاورتی اجلاسوں میں مصروف ہے۔صدر سے انتخابات کی تاریخ کے لیے مشاورت کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا ہے۔ملک میں پہلی بار یہ ڈسکشن ہو رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدآمد ہو گا یا نہیں ۔گویا اس بات کا امکان موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدآمد نہ ہو اور اب بھی حیلے بہانوں سے ٹال دیا جائے۔ ان حالات میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ زبردستی کے ابہام پیدا کرنا ہی پی ڈی ایم کی حکمت عملی ہے تاکہ انتخابات کو مزید ٹالا جا سکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس حکمت سے کتنا عرصہ کام چلایا جا سکتا ۔ دو مہینے ،تین مہینے یا چار مہینے؟ تب تک کوئی ایسا جادو تو ہو گا نہیں کہ حالات پی ڈی ایم کے حق میں ہو جائیں۔پھر اگر کل الیکشن میں جانا ہے تو آج کیوں نہیں؟