دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بس لوگ خزانے کے لیے آئے تھے کیا کریں وبا بھی ظالموں کی مدد کے لیے آئی ہے کہ وبا کا جال پھیلا کر اپنے اہداف شکار کیے جا رہے ہیں۔ لوگ سہمے ہوئے ہیں، کچھ ڈرتے جا رہے ہیں اور کچھ مرتے جا رہے ہیں مگر کام کرنے والے اپنا کام کرتے جا رہے ہیں، یعنی کام دکھاتے جا رہے ہیں۔ اف میرے خدایا! عوام کو نیک لاک Neck Lockلگا دیا گیا ہے۔تیرے وعدوں پر اعتبار کیا۔ ہائے خود کو بہت ہی خوار کیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر قول و فعل کے کھلے تضاد کو منافقت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ میں نے پچھلے کالم میں پی ٹی آئی کو آئنہ دکھایا تو کومنٹس کی بارش ہو گئی کہ آپ نے دھوکہ کھانے والوں کی صحیح نمائندگی کی۔ اس پر مجھے عدیم ہاشمی کا شعر یاد آ گیا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر وہ جو کہتے ہیں آفت کے پر کالے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد الٹا اس لاہوریوںپر چڑھ دوڑی ہیں کہ سارے لاہوری جاہل ہیں، گویا خود وہ باہر جا کھڑی ہوئی ہیں۔ ان کے اس بیان پر لوگوں کا وہ رد عمل ہوا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ ایک ترکیب جاہل مطلق کی بھی ہوتی ہے۔اصل میں عوام ہی کسی پیج پر نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ سیاستدان بھی اسی پیج پر جانا چاہتے ہیں جہاں سے انہیں عارضی حصہ مل جائے۔ یہ ایک سانحہ ہے اور اس سے بھی بڑا سانحہ یہ کہ ’’اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس قاتل پہ دم نکلے: ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران ہنگامہ آرائی اور گالی گلوچ،خیر اس سے ہمیں کیا لینا دینا کہ یہ تو پارلیمانی زبان ہے مراد سعید نے خواجہ آصف کو جھوٹا کہہ دیا۔ سبحان اللہ، ایک سچے اور صادق آدمی نے یہ کیا کہہ دیا۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ اب سوچنا ہے کہ زہر کس کو چڑھے گا۔ ’’جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا۔ تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا۔‘‘ یہ تو اس طرح کا الزام ہے کہ کوئی مراد سعید کو سچا کہہ دے۔ انہیں دیکھ کر کبھی شہزاد احمد بھی یاد آتے ہیں: یہ سمجھ کے جانا ہے سچ تمہاری باتوں کو اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے ویسے یہ پی ٹی آئی والے اب سوشل میڈیا سے غائب ہیں۔ اگر ہیں بھی تو ناراض قسم کے جن میں ادیب شاعر زیادہ ہیں۔ شبہ طراز اور طارق چغتائی نے بھی کمنٹ کیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے چاہنے والوں کو بہت مایوس کیا۔ اقتدار جاوید صاحب تو بہت غصے میں ہیں اور نجمہ منصور نے بہت ردعمل کیا۔ صوفیہ بیدار لکھتی ہیں کہ ’’علم و دانش و ادب کا گڑھ لاہور اپنے تمام شعرا، ادبا اور نقادوں اور فنکاروں سمیت جاہل ہو گیا۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے کتنے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ قصور ان کا صرف یہ کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور نا اہلوں کو خود پر مسلط کر لیا۔ بس اس کو کہتے ہیں اپنے ہاتھ سے گڑھا کھودنا۔ ہمارے دوست راحت بابر نے کہا ہے کہ وہ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام جاہل ہیں تو کیا ہم واقعی جاہل ہیں۔ ویسے اپنی بات پر ضد اور مسلسل ضد کس بات کی غماضی کرتی ہے۔ ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘ وہ پھر بھی نہیں مانیں گے۔ وہ اس یو ٹرین پر رک گئے جو قوم کے لیے ضروری تھا۔ ابھی میں نے اتنا لکھا تھا کہ خبر آئی کہ سید منور حسن شاہ صاحب کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں وینٹی لیٹر دے دیا گیا ہے۔ سچی بات ہے کہ دل کو ایک دھچکا سا لگا کہ ایسے محترم اور سچے لوگ اب کم یاب نہیں نایاب ہیں۔ انہوں نے حق بات کہنے میں کبھی لیت و لعل سے کام نہیں لیا۔ ایک برگزیدہ شخص، ایک پاکیزہ اور معطر شخص۔ ’’پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ اب۔ افسوس تجھ کو میر سے صحبت نہیں رہی‘‘۔ یقینا میری طرح لاکھوں کیا کروڑوں لوگ ان کے لیے دعا کر رہے ہوں گے کہ اللہ انہیں جلد سے جلد صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ بعض باتوں پر یقین نہیں آتا کہ اس دور میں ہی رونما ہو سکتی ہیں۔ مجھے میرے دوست خالد محمود جو کہ منصورہ کے ساتھ رہتے ہیں کہنے لگے کہ وہ نو سال تک اس بات کی ٹوہ میں رہے کہ کبھی منور حسن شاہ کا منصورہ کی جامع مسجد میں دوسری صف میں نظر آ جائیں مگر یہ حسرت ہی رہی وہ جب بھی نظر آئے ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھے ہوئے، یہ لوگ ہیں جو رول ماڈل ہیں مگر ہم کن کے ہاتھوں میں یرغمال بن گئے۔ جو کبھی معیشت پر وار کرتے ہیں کبھی مذہب پر اور کبھی کچھ اور کام دکھاتے ہیں۔ مذہب بے زار قسم کے پیرا شوٹرز۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے خان صاحب نے اکھٹے کیے ہیں۔ وائے قسمت احساس زیاں بڑھتا جا رہا ہے۔