از کارِ رفتہ سپاہی کو برسوں پیشہ وارانہ میٹنگز،پریزینٹیشنز اور علمی تقریبات سمیت لاتعداد سرکاری و غیر سرکاری مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ’فیکٹ فورم‘ کے زیرِ اہتمام ، پاکستان اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف کے اعزاز میں منعقدہ تقریب ازکارِ رفتہ سپاہی کے لئے مگر ایک خوشگواراور انوکھا تجربہ ثابت ہوئی۔گاڑھے پروٹوکول اور ہٹو بچو سے دور، خاکسار اِس باراسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ کے ایک پرسکون کونے میں مختص میز پر کئی مطبوعہ دیوانوں کے حامل شعرائ، متعدد کتابوں کے مصنفین ، ماہرینِ تعلیم اور معروف کالم نگاروں کے اندر گھرا بیٹھا تھا۔ یہ سب خواتین و حضرات ’ فیکٹ فورم ‘ نامی ایک چھوٹے سے مگر موثرو فعال تھنک ٹھینک کا حصہ تھے۔ ’فیکٹ فورم‘ کی بنیاد سال 2003 ء میں نیشنل لائبریری اسلام آباد کے اندر منعقدہ ایک تقریب میں رکھی گئی۔کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر ملک بھرسے شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی تھی۔ معروف شاعر اور خاکہ نگار سلمان باسط فورم کے پہلے سیکریٹری منتخب ہوئے۔فورم کی پہلی تقریب میںڈاکٹر اجمل نیازی اور ممتاز شاعراقبال کوثر شریک ہوئے تو بعد والی تقریبات میں بانو قدسیہ، احمد فراز، ڈاکٹرفتح محمد ملک اورعطا ء الحق قاسمی جیسی شخصیات رونق افروز ہوتی رہیں۔سلمان صاحب بعدازاںبیرونِ ملک منتقل ہوگئے، تاہم فورم کی روحِ رواں عائشہ مسعود نے اپنی ادبی اور صحافیانہ مصروفیات کے باوجود خود کو فورم سے منسلک رکھتے ہوئے اس کی سرگرمیوں کو کسی نا کسی سطح پر جاری و ساری رکھا۔ عائشہ مسعود ایک معروف شاعرہ، اور متعدد کتابوں کی مصنفہ ہونے کے علاوہ ایک ممتاز ٹی وی اینکر اور صحافی ہیں۔ برسوں نوائے وقت سے وابستہ رہی ہیں۔حال ہی میںاُن کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ وہ متعدد فلاحی تنظیموں کی روحِ رواں اورمعروف کالم نگار محترمہ عظمیٰ گل ،ڈاکٹر شاہداقبال کامران ، ڈاکٹر اخلاق احمد اعوان اور نرجس افتخار کاظمی جیسے سنیئر ماہرینِ تعلیم و مصنفین ، نسیم سحراورجناب ارشد مرشدجیسے منجھے ہوئے شعراء ،حکیم عبدالرئوف کیانی جیسے تخلیق کار و ناشر اورشوبز سے منسلک چوہدری فہد بھٹہ جیسوںکو ایک چھت کے نیچے بٹھانے میں کامیاب ہو گئیں۔ فورم کی اس عمدہ تقریب کوکامیابی اور خوش اسلوبی سے منعقد کروانے میں معروف شاعر، محقق اور فورم کے موجودہ سیکرٹری،محترم خالد مصطفٰی کا کردارکلیدی اہمیت کا حامل رہا۔خالد کم ازکم چھ عدد کتابوں کے مصنف ہیں۔حال ہی میں ’ہلال‘ میں چھپنے والاعسکری قلم کاروں سے متعلق ان کا تحقیقی مقالہ بے حد دلچسپی سے پڑھا گیا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ عائشہ کے ساتھ ساتھ خالد مصطفٰی نے بھی پسِ پردہ کاوشو ں کے ذریعے اِس ایک تقریب کے انعقاد کی صورت ، فورم کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ از کارِ رفتہ سپاہی بھی گو اس تقریب کا حصہ تھا، تاہم وہ کہ جس کی جھولی میں چند اخباری کالموں کے سوا کچھ نہیں، قدآور تخلیق کاروں کے جھرمٹ میں خود کو اجنبی محسوس کرتا رہا ۔ فورم کا حصہ بننے کا اعزاز خاکسار کو بحیثیت ایک کالم نگار ہی عطا کیا گیاہے۔ تقریب کی مہمانِ خصوصی ، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے چیئرپرسن اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدے کا چارج حال ہی میں سنبھالا ہے۔راقم کا یہ تاثر ہے کہ ادبی حلقوں میں ان کی تعیناتی پر مجموعی طور پر مثبت ردعمل پایا جاتا ہے۔ ہمارا اندازہ یہی ہے کہ خود محترمہ کو بھی ادبی حلقوں میںخود سے وابستہ اُمیدوں کا کامل ادراک ہے۔ جبھی تو انہوں نے حاضرینِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس انتہائی اہم عہدے پر تعیناتی کے نتیجے میں ملنے والی فطری مسرت،اُن ذمہ داریوں کے بوجھ کے نیچے کہیںدب کر رہ گئی ہے جو پاکستانی زبانوں میںادب کے فروغ کے سلسلے میں ملک بھر سے تخلیق کاروں نے ان سے وابستہ کر لی ہیں۔اکادمی ادبیات پاکستان کی بنیاد سال 1976ء میں رکھی گئی تھی۔ اکادمی نے اب تک مختلف موضوعات پر درجنوں ادبی و تخلیقی اور ترجمہ شدہ کتابیں شائع کی ہیں۔ اکادمی کے اپنے کتب خانے میں چالیس ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ کتابوں کے فروغ کی خاطر،فورم کے ارکان کی جانب سے ڈاکٹرصاحبہ کو متعدد تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف بنیادی طور پر اردو زبان کی معلمہ اور مصنفہ ہیں۔ ملکی و غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ اورانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی سربراہی سمیت، بتیس برسوں سے زائد تدریسی تجربے کی حامل ہیں۔پاکستانی زبانوں کی ترویج کیلئے حکومتِ پاکستان کی جانب سے تشکیل دی گئی کئی اعلیٰ سطحی مجالس کا حصہ رہی ہیں۔ان کی ادبی اور علمی خدمات کو ایک اخباری کالم میں سمونا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ تقریب میں ڈاکٹر صاحبہ اپنے شریکِ حیات جناب محمد عارف کے ساتھ تشریف لائیں، جو خود بھی صاحبِ اسلوب ادیب ہیں۔متعدد تقریبات میںہم نے کئی مہمانانِ خصوصی کوaccompanied آتے دیکھا ہے۔ محترمہ نجیبہ عارف اور جناب محمد عارف کی آمداور تقریب کے دوران ان کی موجودگی اور دونوں کے درمیان نظر آنے والی’ کیمسٹری‘ بہرحال متاثر کن تھی۔ تقریب کے شرکاء باری باری اپنے تاثرات کا اظہار کر چکے تو محمد عارف صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ بالاصرار اپنی کتاب سے انہوں نے کچھ پڑھ کر سنایا۔ اُس میں بھی وہ نجیبہ کا فی البدیہہ تذکرہ شامل کئے بغیر نہ رہ سکے۔ڈاکٹر نجیبہ کا خطاب ایک دانشور کی خود کلامی تھی، کاندھوں پر پڑے بھاری بوجھ کا جسے پوری طرح احساس ہو۔ تقاریر کے بعد چائے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گفتگوکے دوران از کارِ رفتہ سپاہی یہی سوچتا رہا کہ میاں بیوی میں نام کو بھی کروفر کیوں نہیںہے؟میرا توتاثر یہ بھی ہے کہ دونوں ناصرف زندگی، ایک دوسرے کے ساتھ، بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق خوداپنی اپنی ذات کے ساتھ بھی ’حالتِ امن‘ میں جیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ یقینا ایک روشن خیال خاتون ہیں۔تعلیم اور روزگار سمیت عورتوں کے حقوق و مسائل سے متعلق اُن سے بڑھ کر کون آگہی رکھتا ہو گا کہ ابتدائی برسوں میں جوتنِ تنہا مضافات سے بسیں بدلتی شہر، اور شہر میں ایک کے بعد دوسری ویگن کے ذریعے ہر روز یونیورسٹی پہنچتی رہی ہوں۔ آج جس مقام پرفائزہیں،یہاں تک پہنچنے کی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں مگرانہوں نے اُن مردوں کا ذکر نہیں کیا کہ جن کی نگاہیںجسموں سے آر پار ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر نجیبہ نے اپنی گفتگو میں اپنے والد،بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر سمیت ان مردوںکو یاد کرنا زیادہ مناسب سمجھا کہ جو زندگی کی جدو جہد میں اُن کے مددگار بنے۔انہی مردوںکے رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے، ڈاکٹر صاحبہ نے معاشرے کے اندرعورتوں اور مردوں کے مابین تعلقات کارسے متعلق اپنے تصورات کے خدوخال کو اجاگرکیا۔ ’فیکٹ فورم ‘ کی چیئرپرسن عائشہ اوران کے دستِ راست خالد مصطفی، دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر آنے والے دنوں میںجناب مسعود مفتی کی زندگی اور کام پر لکھی گئی ایک کتاب کے علاوہ نیلم بشیر کی کتاب’مور بلیندا‘ کی رونمائی کے نیک ارادوں سے لیس ہیں۔ خدا ان کی مدد اور رہنمائی فرمائے۔