اپنے بتیس سالہ تدریسی تجربے کی بنا پر سچ کہتا ہوں کہ اُردو کو مشکل اور نئی نسل میں غیر مقبول بنانے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہماری گنتی کا ہے۔یہ غالباً دنیا کی واحد گنتی ہے جسے ایک سے سو تک، یعنی ہر ہندسے کو الگ الگ یاد کرنا پڑتا ہے۔ مغرب پرست اور انگریزی نواز طبقہ اس کی اسی کج ادائی کو بنیاد بنا کر اِسے کسی گنتی میں شمار نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہ صورتِ حال، تمام ہندسوں کو غیر ذمہ دارانہ یک لفظی نام یا پہچان عطا کرنے کی شعوری یا ادھوری کوشش سے پیدا ہوئی۔اگر ہمارے بزرگ اپنے ذاتی طور پر گھڑے ہوئے ہر اصول، ہر ضابطے کو حرفِ آخر سمجھنے، اسے مقدس بَچھڑا بنا کر پُوجنے کی لاعلاج بیماری میں مبتلا نہ ہوتے اور کسی نہ کسی زمانے میں وقت کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس گنتی میں در آنے والی بوالعجبیوں اور شتر گربگیوں پہ ہمدردانہ و مصلحانہ نظر ڈالتے رہتے تو آج انگریزی گنتی کو منٹوں میں ازبر کر لینے والے بچے گھر گھر، سکول سکول یہ نہ پوچھتے پھرتے کہ ماما/ مِس! ذرا بتائیے کہ یہ اُنچاس فورٹی نائن کو کہا جاتا ہے یا ففٹی نائن کو؟ نئے زمانے کے لوگ تو اکثر اوقات شدید حیرانی کے عالم میں دریافت کرتے ہیں کہ ’’بہتر ‘‘کوBetterکے معنوں میں لیں یا بہتّر (72 ) Seventy twoکے مفہوم میں؟ بعض جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا تو پندرہ،سولہ… چھبیس، ستائیس … سینتیس، اڑتیس… اَڑسٹھ، اُنہتر… تریپن، چوّن …تریسٹھ، چونسٹھ … چھیاسٹھ، سڑسٹھ… اٹھتر، اُناسی … چورانوے، پچانوے… کی ’رنگا رنگی‘ یا ان کے بقول مشکل ادائیگی اور بے جوڑ قوافی کی وجہ سے لہجہ، تلفظ اوردل ساری عمر صاف نہیں ہوتا۔حالانکہ بات صرف دلچسپی اور لگن کی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایف سی یونیورسٹی میں بی ایس آنرز کی ایک فیشن مزاج لڑکی، جس نے شاید جنرل کریڈٹس پورے کرنے کی غرض سے اُردو کلاسیکی شاعری کا کورس لیا ہوا تھا،ایک دن کلاس لیکچر میں قلی قطب شاہ، مُلّاوجہی، میر ببر علی انیس، غلام ہمدانی مصحفی، مصطفی خاں شیفتہ اور عبدالحئی تاباں وغیرہ جیسے بے ضرر سے نام سن کر کہنے لگی: ’’اُف توبہ! اُردو شاعروں کے نام کتنے مشکل ہیں!!‘‘ مجھے اس عزیزہ کی انگریزی ادب، ہندی فلموں اور بین الاقوامی کرکٹ میں شدیددلچسپی کا اندازہ تھا، چنانچہ مَیں نے اس سے فوراً دریافت کیا کہ: ’’بچے! آپ کا ارسٹوٹل، سگمنڈ فرائیڈ، جیکوئس لاکان، جوناتھن سوئفٹ، ولیم ورڈزورتھ، گارشیا مارکیز، ڈونلڈ ٹرمپ، دیپکا پڈو کون، پریانکا چوپڑا، سچن ٹنڈولکر، ابھیشک بچن، مادھوری ڈکشٹ، رابرٹ وٹمور، سدھارتھ وٹمنی اور متایا مرلی دھرن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو خاموش سی ہو گئی۔ بات اپنی گنتی کی ہو رہی تھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ اپنی اُردو گنتی کے ہر دھاکے کے آخر میں آنے والے ہندسے یعنی: انیس، انتیس، انتالیس، انچاس، انسٹھ، انہتر ، اناسی اور نواسی، ننانوے نے تو انگلش میڈیم نسل میں سب سے زیادہ دہشت پھیلا رکھی ہے، بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ عام آدمی بھی ان کی بے ربطیوں کی بنا پر حساب کتاب میں مشکل کا شکار ہو جاتا ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ اپنے بے محل مقام کی وجہ سے ہر ذی شعور کو کھٹکتے ہیں۔ پھر ان میں بعض الفاظ کی ذو معنویت بھی کھُد بُد میں مبتلا کرتی ہے۔ ہمارا چونکہ اپنی یونیورسٹی میں زیادہ تر جدید انگریزی اداروں سے اے لیول یا انٹرمیڈیٹ کر کے آئے طلبہ و طالبات سے واسطہ پڑتا ہے، اس لیے یہاں گنتی کے یہ مسائل محض گنتی کے نہیں بلکہ معمول سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک دن ہماری ایک شدید و جدید و شریر طالبہ شوخی و شوخ چشمی کے عالم میں دریافت کرنے لگی: ’’ سر! ذرا بتائیے کہ یہ لفظ ’نواسی‘ رشتہ ہے یا ہندسہ؟ ہمارے اندر کے مزاح نگار نے بھی فوری سر اٹھایا اور ترکی بہ ترکی جواب دیا: ’’دیکھو بچے! رشتے میں بیٹی کی بیٹی کو نواسی کہتے ہیں اور گنتی میں ایٹی (80) کی بیٹی کو۔ یہ انیس تا ننانوے والے ہندسوں کے غلط محلِ وقوع (Placement) کی وجہ سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ تمام ہندسے ست ماہے بچے یا بے موسمے پھل کی طرح اپنے وقت، اپنی دھائی یا دھاکے کی حدود شروع ہونے سے پہلے ہی کیوں ٹپک پڑتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے اس شمار قطار میں صرف ننانوے ہی ہے جو کسی حد تک اہلِ ہندسہ کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ اس ساری کھجل خواری سے بچنے کے لیے ہمارے بڑوں کو کرنا صرف یہ تھا کہ اٹھارہ کے بعد کوئی اسی قبیل کا،الف اور نون سے شروع ہونے والا ایک لفظ ڈھونڈنا تھا۔ اس دھائی کے مزاج کے اعتبار سے ’ اَنارہ‘ بہترین انتخاب ہو سکتا تھا۔سترہ، اٹھارہ، انارہ۔ اسی طرح انتیس کو ’انائیس‘ کے روپ میں ڈھال کے ستائیس، اٹھائیس کے بعد قافیے کے التزام اور مغالطے سے بچاؤ کی خاطر فِٹ کر دیتے، یعنی ستائیس، اٹھائیس، انائیس (یوں یہ حیرتوں کا مارا انیس بھی اُردو مرثیے میں مبالغے کے بادشاہ میر انیس کے لیے وقف ہو جاتا لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اہلِ زبان نے انیس بیس والے محاورے کے احترام میں ایسا نہیں کیا) اس کے آگے تو معاملہ ہی سیدھا تھا… سینتیس، اڑتیس،انتیس… سینتالیس، اڑتالیس، انتالیس … ستاون، اٹھاون، انچاس (قافیہ درست رکھنے کے لیے انچاس کو انچاون بھی کیا جا سکتا تھا ) پھر اسی ترتیب سے سڑسٹھ، اڑسٹھ، انسٹھ … ستتر، اٹھتر، انہتر اور ستاسی، اٹھاسی، اناسی… اللہ اللہ خیر صلّا… نواسی کو پوری آزادی کے ساتھ صرف رشتے کی ذمہ داری نبھانے کے لیے آزاد کیا جا سکتا تھا۔ اس میں ایک آسان ترین راستہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بیس کے بعد ہر دھائی کو انگریزی کی طرز پر بیس ایک، بیس دو، بیس تین …تیس ایک، تیس دو، تیس تین… سے ہوتے ہوتے نوے ایک ، نوے دو، نوے تین کی صورت میں سو تک رائج کر لیا جاتا بلکہ اب بھی کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ آنے والے دَور میں ہر طالب علم کا گنتی والا مسئلہ نہایت سہولت سے حل ہو جائے گا۔ ہندسے تمام کے تمام انگریزی والے استعمال کرنے سے اس میں بین الاقوامیت کا تڑکا بھی لگ سکتا ہے… لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سیاسی بدتمیزی اور لسانی بے وقعتی کے دَور میں اس توجہ کی فُرصت کسے ہے؟؟؟