اگر کے پی اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں تو کیا ہو گا اور کیا ہوناچاہیے؟ ان سوالات کا جواب پی ڈی ایم یا تحریک انصاف کے ہمدرد یا ناقد کی بجائے صرف پاکستان کے ایک عام شہری کے طور پر تلاش کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں سیاسی تقسیم اتنی منہ زور ہو چکی ہے کہ اس کے آگے سب کچھ غیر اہم سا ہو گیا۔ اب کسی بھی موقف اور کسی بھی معاملے کو دلیل کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا۔ عصبیت کی بنیاد پر یہاں موقف اختیار کیا جاتا ہے اور وابستگی ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔ معاشرہ تو اس عذاب سے دوچار ہو ہی گیا تھا ، المیہ یہ ہوا کہ جن کے نام اہل دانش کی تہمت دھری جاتی ہے وہ بھی تقسیم ہو گئے۔ آقا نہیں تو میدان سیاست میں اکثریت کا محبوب اور رقیب موجود ہے۔ زبان اور قلم اب حرکت میں آتے ہیں تو محبت کی بنیاد پر یا نفرت کی بنیاد پر۔ کچھ وہ ہیں جنہیں عمران کی آنکھ کا بال بھی شہتیر نظر آتا ہے اور وہ اس پر ایسے تنقید کرتے ہیں جیسے کوئی منگول سالار کشتوں کے پشتے لگا رہا ہو۔ اور کچھ وہ ہیں جن کے نزدیک خرابی اس چیز کا نام ہے جو پی ڈی ایم میں پائی جاتی ہو اور خوبی وہ ہے جسے کپتان سے نسبت ہو۔ جو عمران پر منگول بن کر اصول کی تلوار سے یلغار کرتے ہیں ان کی شمشیر اس وقت موم ہو جاتی ہے جب وہی اصول نواز شریف پر لاگو کرنا پڑ جائے اور جو نواز شریف اور مولانا پر ہر وقت مولا جٹ کا گنڈاسا لے کر حملہ آور رہتے ہیں، عمران خان کی بات چل نکلے تو وہ سارے جلال کو ایک طرف رکھ کر گنگنانے لگتے ہیں: اساں جان کے میچ لئی اکھ وے، جھوٹی موٹی دا پا لیا اے ککھ وے۔ نتیجہ یہ کہ اعتبار ہی ختم ہو چکا۔ چہرے دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کس نے کیا لکھا ہو گا اور کون کیا فرمانے جا رہا ہے۔آزاد رائے قصہ ماضی ہو گئی۔اب زبانیں اور قلم محبوب کی آرتی اتارتے ہیں اور اس پر بلاوجہ ہی صدقے واری جا رہے ہوتے ہیں اور مبغوض پر آگ اگل رہے ہوتے ہیں اور اسے خاکستر کر دینے کے بہانے تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت ساری خوش فہمیاں تھیں اور بہت سارے لوگوں سے تھیں۔ ختم ہو گئیں۔ برباد ہو گئیں۔بہت ساروں کو سننا اور پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔ قلم اور زبانیں نہیں، یہ دست سوال ہیں یاپھر نفرت کے آتش فشاں۔ یہ نتائج فکر کے لیے کسی واقعے اور دلیل کے محتاج نہیں ، یہ نتائج فکر جیب میں لے کر نکلتے ہیں اور پھر ان کی حقانیت کے لیے دلائل تراشتے رہتے ہیں۔ یہ نہ دیانت ہے نہ بصیرت ،یہ صرف چاند ماری ہے۔ جو جس پر فدا ہے اس کے قصیدوں کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے اور جو جس سے نفرت کرتا ہے اس پر تبرا کرنے کے مواقع ڈھونڈتا رہتا ہے۔دانشوری کے نام پر اپنے محبوب کی پریس کانفرنس لکھی اور سنائی جاتی ہے یا مبغوض کی ہجو۔ یہ مفاد ، نفرت اور تعصب کی فرنچائزز کھلی ہیں۔ معاشرے کو اس کارٹل سے بلند ہو کر سوچنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ایک جیتا جاگتا معاشرہ ان دو عصبیتوں کا اسیر ہو کر نہیں رہ سکتا۔اس سیاسی اقلیت نے معاشرہ بانٹ لیا ہے اور عوام سے ہر گروہ کا مطالبہ و ہی ہے جو بش کا تھا: تم کیا ہمارے ساتھ ہو؟مگر جواب دیتے وقت یہ خیال رکھنا کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو تم ہمارے دشمن کے ساتھ ہو۔ معاشرے کا سارا بانکپن اس مجاوری نے چھین لیا ہے۔ لوگ کوزہ گری کرتے ہیں اور منصب کے آرزو مند رہتے ہیں۔ ہر شعبے میں زوال کا وقت ہے اور ہر جگہ خوشامد ، عصبیت اور دھڑے کی بنیاد پر مناصب بانٹے جاتے ہیں۔ اس ماحول میں اگر کوئی سوال اٹھائے کہ اگر کے پی اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں تو کیا ہو گا اور کیا ہوناچاہیے؟تو مروجہ چاند ماری میں اس کے دو جواب ہیں۔ایک تحریک نصاف کی عقیدت میں لپٹاجواب اور دوسرا پی ڈی ایم کی محبت میں لپٹا جواب۔ معاشرے کو اس جنون نے یرغمال بنا لیا ہے۔ تیسری کوئی صورت باقی نہیں رہنے دی۔عمران پر تنقید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے پی ڈی ایم سے لفافہ لے لیا ہے اور پی ڈی ایم پر تنقید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت دشمن بھی ہے اور اس کو مولانا جیسے اللہ کے نیک بندوں سے بغض بھی ہے۔ نجات مگر اسی میں ہے کہ اس تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک عام پاکستانی کے طور پر معاملات کو دیکھا جائے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو کیا چند ماہ کی خاطر ضمنی انتخاب ہونا چاہیے؟ کیا پیسے درختوں پر اگتے ہیں کہ عام انتخابات سے چند ماہ پہلے تمام حلقوں سے انتخاب کی مشق سے گزرا جائے؟ کیا معاشی بحران کا شکار ملک اس غیر سنجیدگی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ چند نشستیں خالی ہوجانا اور بات ہے لیکن تمام حلقوں پر ضمنی انتخابات کا کیا جواز ہے؟ جب تمام اراکین تازہ مینڈیٹ لے آکر آئیں گے تو اس نئی سمبلی کی مدت چند ماہ کیوں ہو گی؟ پورے پانچ سال کیوں نہیں ہو گی؟آئین کی روح کا تقاضا ہے کہ پوری اسمبلی کا انتخاب نیا ہوگا تو اس کی مدت پورے پانچ سال ہو گی۔ دو چار نشستوں کی بات الگ ہے لیکن سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر دو اسمبلیاں ہی گھر بھیج دی جائیں تو کیا اس سیاسی ایڈوانچر کی قیمت غریب قوم سے لی جانی چاہیے یا متعلقہ سیاسی جماعت سے؟ کیا ضمانت ہے کہ اگلے الیکشن میں ہارنے والی جماعت ایک بار دھاندلی کا شور نہ مچائے؟ انتخابی اصلاحات تو کسی نے کی ہی نہیں۔ نہ عمران حکومت نے نہ پی ڈی ایم حکومت نے۔ کون اور کیسے ضمانت دے گا کہ اگلے الیکشن کی نتائج تسلیم کر لیے جائیں گے اور ہارنے والا دھاندلی کو پرچم بنا کر پھر میدان میں نہیں ہو گا ۔تو اگر ہارنے والی وہ جماعت احتجاجی طور پر اسمبلیوں سے استعفی دے ڈالے توکیا ہم بار بار ضمنی انتخابات کراتے پھریں گے؟کیا ملکی معیشت کے ساتھ اس سے سنگین مذاق کوئی ہو سکتا ہے؟ ایک حربے کے طور اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں یا کوئی رکن جھوٹ بولنے پر نااہل ہو جاتا ہے اور اس کی نشست خالی ہو جاتی ہے تو قومی خزانے سے ضمنی الیکشن کرانے کی بجائے کیوں نہ یہ اصول طے کر دیا جائے کہ اس صورت میں نئے یعنی ضمنی انتخاب کی بجائے پچھلے انتخاب میں دوسرے نمبر پر آنے والے کو کامیاب قرار دے دیا جائے۔ وزیر اعلی پنجاب کہہ چکے کہ 99 فیصد لوگ اسمبلی تحلیل کے حق میں نہیں۔ کیا اس کے باوجود اسمبلی تحلیل کی جا سکتی ہے؟ یہ جمہوریت یا پائیں باغ جہاں اکثریت نہیں بلکہ مزاج یار ہی فیصلہ ساز ہوتا ہے۔ پہلے ہمارے اہل سیاست ایوان میں سنجیدگی نہیں دکھاتے اور منتخب ہونے کے باوجود وہ قانون سازی کے اصل فریضے کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیں اب اگر سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر اسمبلیاں ہی تحلیل کرنے کا رواج چل نکلا تو کیا آگے کوئی اسمبلی سلامت رہ پائے گی؟