اشرف غنی صدارت سے دستبردار ہو کراپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہمسایہ ملک تاجکستان پہنچ گئے ہیں،ان کے افغانستان چھوڑنے سے پہلے افغان حکام نے طالبان کے ساتھ کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا نے کا بتایا تھا۔ اشرف غنی حکومت کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزا کوال کا کہنا تھا کہ اقتدار پرامن طریقے سے منتقل ہو گا۔ اس معاہدے کی اطلاع سے خدشات رفع ہو رہے ہیں کہ 29صوبوں پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان دارالحکومت کابل پر کنٹرول کے لیے خونریزی کریں گے۔ شدید بحران اور کشیدگی کے دوران افغان حکومت کے رویے میں تبدیلی اور طالبان کی سوچ میں لچک سے امیدیں جاگ رہی ہیں کہ مسلسل جنگ سے تباہ حال افغانستان میں اگلے چند روز کے دوران حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی کے باعث اگرچہ ذرائع ابلاغ کے لیے کسی ایک واقعہ پر رک کر اس کا تجزیہ کرنا مشکل ہو رہا ہے تا ہم نیٹو کے حلقوں میں جاری مشاورت، افغان حکام کے بیانات اور طالبان کے اعلانات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کا کنٹرول طالبان کے پاس جا رہا ہے۔ ممکن ہے سوموار کی صبح تک کوئی حتمی اور متفقہ منصوبہ سامنے آ چکا ہو۔ افغانستان ایک بدقسمت ریاست رہا ہے جہاں کے لوگوں کو داخلی اصلاحات سے زیادہ بیرونی مداخلت کے توسط سے سیاسی نظام ترتیب دینے پر مجبور کیا گیا۔ افغانستان میں بادشاہت تھی۔ اس ملک کوسوویت یونین نے اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش میں تباہ کیا اور وہاں ایسے افراد کو حکمران کے طور پر حمایت فراہم کی جو کمیونسٹ انقلاب کو افغانستان کی سرحد پار کروا کر پاکستان کے سمندروں تک پہنچانے میں معاونت کی یقین دہانی کراتے تھے۔ افغان عوام کو سماجی آزادیاں دے کر کمیونزم کے حامی بنایا گیا۔ شاید یہ سلسلہ اسی حد تک محدود رہتا تو معاملات نظریاتی کشمکش سے بڑھ نہ پاتے لیکن سوویت یونین نے اپنی حامی حکومت کی مدد کے لیے جب افواج بھیجیں تو کمیونزم مخالف حلقوں نے مزاحمت کا اعلان کر دیا۔ اس مزاحمت نے جلد ہی ایسے جہاد کی شکل اختیار کر لی جسے سوویت یونین کے مخالف امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ بارہ تیرہ برس کے جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین منہدم ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ سارا کھیل سوویت یونین کو پھنسا کر امریکہ نے کھیلا اور اس کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو جنگ کا میدان بنا دیا۔ امریکہ نے سوویت انہدام کے بعد افغانوں کو آپس میں جھگڑتا چھوڑ دیا۔ درجنوں جنگجو دھڑوں میں منقسم افغان رہنما قومی ایجنڈے پر متفق ہو سکے نہ کوئی ایسا سیاسی نظام تشکیل دے پائے جو اقتدار کی پرامن منتقلی کی ضمانت دے سکتا۔ ہزاروں افراد اس باہمی لڑائی میں مارے گئے۔ اکتوبر1994ء میں پاکستان کے مدارس سے فارغ التحصیل طالب علموں نے ملا عمر کی قیادت میں تحریک طالبان کا آغاز کیا۔ چند ماہ کے اندر تحریک طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ طالبان نے شرعی قوانین نافذ کیے۔ عورتوں کے حوالے سے سختی سے کام لیا، بامیان میں بدھا کے مجسموں کو عالمی برادری کی اپیل کے باوجود توڑ دیا اور پوست کی کاشت کو ممنوع قرار دیا۔ طالبان نے جرائم پیشہ افراد کو شرعی سزائیں دیں۔ ان اقدامات سے طالبان مخالف حلقوں کے اعتراضات کافی شدید تھے لیکن دنیا نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا تھا۔ یہ صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ اس واقعہ کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عاید ہوئی جو افغانستان میں تھے اور طالبان نے ان کو پناہ دے رکھی تھی۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو مہمان قرار دے کر امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور پھر امریکہ اٹھائیس نیٹو ممالک کی افواج لے کر حملہ آور ہو گیا۔افغانستان میں بیس سال قیام کے دوران امریکہ نے سیاسی نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ طالبان سے مذاکرات کرنے کی بجائے ان پر بمباری کی جاتی رہی۔ پاکستان نے اگر مذاکرات کی تجویز دی تو اس کے ساتھ بھی دشمنوں والا سلوک شروع کر دیا۔ کھربوں ڈالر خرچ کیے گئے کہ طالبان اور پاکستان کے مخالف عناصر کو طاقتور کیا جائے۔ یہ بات الگ کہ شکست سے دوچار امریکہ کو اپنی عزت بچانے کے لیے آخر پاکستان کی تجویز پر عمل کرنا پڑا۔ طالبان نے پاکستان کے کہنے پر امن مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات میں بار بار یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ انخلا کے بعد افغانستان میں کس طرح کا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ کام کرے گا۔ المیہ یہ کہ امریکہ اس سلسلے میں افغان روایات اور دوبارہ سے طاقت پکڑنے والے طالبان کی تجاویز کو نظرانداز کر کے اقتدار اپنے کٹھ پتلی افراد کے پاس رکھنے کی ضد کرتا رہا۔ اس ضد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جب افغان عوام نے طالبان کا ساتھ دیا اور طالبان انخلا کی مدت کے اختتام سے پہلے ہی دارالحکومت تک پہنچ چکے ہیں تو ملک میں کس کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔اطلاعات ہیں کہ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں اہم ذمہ داری دی گئی ۔ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر کے خونریزی کے خدشات کم کر دیئے ہیں۔ طالبان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا شہر اور ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔ اٹھائیس ملکوں کے دفاعی اتحاد نیٹو کے اجلاس جاری ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے ہنگامی مشاورت کر رہے ہیں تا کہ خون بہائے بنا فریقین کو کسی معاہدے پر رضا مند کیا جا سکے۔ عبوری طور پر ملا برادر کو ذمہ داری دینے کی بات ہو رہی ہے۔ واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ان کے ساتھ چلنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس ہنگامی حالت میں پرامن انتقال اقتدار کا فارمولہ طے پا گیا تو اسے ایک بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔