یہ ایک المناک کہانی ہے کہ پاکستان کی اقتداری سیاست میں اقدار نہایت برے طریقے سے پامال ہورہے ہیںاوراقتدار کی رسہ کشی میں اقدار کی پامالی پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ حکمرانوں کے ہاتھوں اقدار کی پامالی پاکستان کی اقتداری سیاست کی شناخت بن چکا ہے۔سیاسی جماعتوں کے کرداروعمل اوران کے قیل وقال کے باعث پاکستان کے عوام الناس ایک قوم بننے کے بجائے پاکستان میںجماعتی اورتنظیمی اور علاقائی تعصبات فروغ پارہے ہیں۔کڑواسچ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کا ماحول ہی بدل گیا ہے، الزام تراشی، گالم گلوچ، ہلڑبازی، پگڑیاں اچھالنا، اب تو کسی شے کو معیوب نہیں سمجھا جارہا۔ اگر یہی کچھ جاری رہا تو واقعی گالی ہمارا کلچر بن جائے گا اور معاشرہ اخلاقی اعتبار سے زمین بوس ہوجائے گا۔یہ ریکارڈ پرموجود ہے کہ کچھ عرصہ قبل لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک سیاستدان کہتا ہے گالی پنجاب کا کلچر ہے، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے، گالی کسی معاشرے یا علاقے سے اسے منسوب کرنا زیادتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک مسلم اورمشرقی معاشرہ کہلاتا ہے یہاں جب کوئی سیاست کاریاحکمران اپنے سیاسی حریف کوبوٹ پالشی،ڈیزل ،بڑی بیمار ی،یہودی ایجنٹ ،بھارتی ایجنٹ قرار دیتاا ہے تووہ اقدار کاجنازہ نکال رہا ہوتا ہے۔ اعلیٰ انسانی و اسلامی اقدار سے عاری مفاد پرست سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہمیشہ ملک و قوم کی ترقی کی بجائے اپنے جزوقتی مفادات کو اولیت دی۔اس قوم کی اقدار،اس کی عزت و توقیر ، تمدن ، تہذیب ، حرمت کیا تھی اور ہو کیا ہو گئی۔پچھلے74 سال میں سیاستدانوں کی ہوسِ اقتدار نے اقدار کے بخیے ہی تو ادھیڑے ہیں۔اخلاقی طور پر ہم پستی کی اس گھاٹی میں اوندھے منہ پڑے ہیں جہاں سے ہم حق کو حق تسلیم کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں، جہاں ہم سچ سننے اور جاننے کے لیے تیار ہی نہیں، اپنی اپنی پارٹیوں اور اپنے اپنے لیڈروں کی عقیدتوں کے بھاری بھاری ٹوکرے ہمارے سروں پر مسلط ہیں اور ہم ان کے بوجھ تلے اس قدر دبے ہوئے ہیں کہ اخلاق کس چڑیا کا نام ہے، بھول چکے ہیں۔ ماضی میں حکمران اقدار کے تحفظ کے لئے اقتدارکی کرسی پربراجمان ہواکرتے تھے ۔لیکن آج کے سیاست کار ان سے دور ہو گئے۔ مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے جس وطن کا خواب دیکھا تھا، ہمیں مل کر اس وطن کی تعمیر کرنی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے جن اہداف کے لئے الگ وطن حاصل کیا تھا، ان اہداف کا حصول ضروری ہے۔ پاکستان جس ہیجانی اور بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اس کے ذمہ دارپاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ہیں کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے سیاسی مفاد ات سے بالاتر ہو کر وطن کی کوئی فکر نہیں رکھتے۔تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ وہی قومیں ترقی کے بام عروج تک پہنچیں جنھوں نے اخلاقی اقدار کو رواج دیا۔ وہ معاشرے برباد ہوگئے جنھوں نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ اسلامی ثقافت اور مذہبی تعلیمات نے اخلاق حسنہ کی ترویج پر جتنا زور دیا شاید ہی کسی مذہب و ملت کی تعلیمات میں ملتا ہو، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے عمومی مسلم معاشروں میں کئی بگاڑ آچکے ہیں۔پاکستان کی سیاست تاریخ کی اس میزان پررکھی جائے توپھر اس حمام میں سب ننگے نظرآئیں گے۔ تمام پارٹیوں نے اقتدار کے حصول کے لئے دوسری جماعتوںکے لوگ توڑے اوراس طرح لوٹاکریسی کو فروغ دیاگیا۔مگر اس کے باوجود بلیم گیم کھیلتے رہے ۔دوسراغضب ناک پہلواس سیاست کایہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اس طرح بار گین کررہی ہیںاورہراس طرف لڑھک رہی ہیں کہ جہاں انہیں بے پناہ ذاتی اورجماعتی فائدے کی پیش کش ہورہی ہے ۔سیاسی جماعتیںمن حیث المجموع معمارانِ قوم کی بتائی گئی ترجیحات کے اوپر مملکت ِ خدادادکو استوارکرنے میں ناکام رہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کے قائدین دہائیوں سے پاکستان کے رعایا کو بار بار بے وقوف بناتے چلے آ رہے ہیں اوراب تک یہ مہیب سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ عوام الناس دلجمعی سے بے وقوف بن رہے ہیں۔پاکستان کے سواد اعظم کا اپنی ذات میں مگن سیاسی قائدین پر وارفتگی اور دیوانگی دیدنی ہے۔گندی سیاست فرقہ بن چکی اورسیاسی جماعتوں قائدین اپنے اپنے حلقوں میں مرجع خلائق کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ملک میں غربت وافلاس نے ڈھریرے جمارکھے ہیں سفیدپوشوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی۔ بہرکیف!اخلاقی اقدار کی پامالی اور فکری بحران ان معاشروں کا حصہ بن جاتاہے جہاں تعمیری جذبوں کو پنپنے کا موقع نہ ملے۔آج حدسے زیادہ ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ،ان کے قائدین ،ان کے اراکین انسانی اقدار کو پہچانیں اوراپنامنفی سوچ فکر کے زاویے بدلیں۔ اپنے ملک میں بسنے والے اوراپنے اہل وطن کے جذبات کا خیال رکھیں ان کو راحت و آرام پہچانے کا عزم کریں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ اقدار کاپاس ولحاظ رکھیں خودغرضی اور نفس پرستی کی بجائے دوسروں کے احترام کا خیال رکھیں۔ یقیناً اس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرتیں اور عداوتیں ختم ہوسکیں گی اوراس زہرکااثر کافور ہوگا۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ بطور ووٹر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ی دکی شخصیت کو مدنظر نہ رکھیں بلکہ ان امیدواروں کو ووٹ دیں جو سیاست کو سیاست نہیں قوم کی خدمت کے طور پر کرتے ہیں ۔ اسی میں ہمسب کی بھلائی ہے ۔ سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ إکالف سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ ضرور بنائی لیکن ایک دوسرے کو گال دینے سے گریز کریں تاکہ خوش گوار طریقے سے تمام ملکی م معاملات نمٹائے جا سکیں۔