عام انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کی وجہ سے ڈالر مزید 4روپے سستا ہوکر 123روپے کا ہو گیا جبکہ یورو کی قیمت خرید میں 10.20پیسے کی نمایاں کمی ہوئی اور برطانوی پائونڈ کی قیمت خرید میں بھی 11.50روپے کمی ریکارڈ کی گئی۔نگران حکومت کے دور میں سیاسی انتشار اور افراتفری کے باعث ڈالر کو پر لگے رہے اور سٹے بازوں کی خوب چاندی ہوئی جبکہ ڈیلرز نے بھی ڈالر کی فروخت روک کر قیمت بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ جس کے باعث ملک بھر میں کاروباری حضرات کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ درمیانے درجے کے تاجروں نے کچھ عرصے کے لیے سامان درآمد کرنا بھی موقوف کر دیا تھا۔ سٹے باز متواتر ڈالر کی قیمت اوپر لے جانے میں مگن رہے لیکن ملک میں سیاسی استحکام آنے کے بعد ڈالر کی قیمت نہ صرف اپنی جگہ پر رُک گئی ہے بلکہ دن بدن واپس آ رہی ہے۔ ڈالر 4روپے اور یورو کا 10روپے نیچے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ مملکت خداداد میں معیشت کی بہتری کا وقت آ گیا۔ نگران حکومت اور سٹیٹ بنک کی بھی اس میں غفلت ہے۔ اگر وزارت خزانہ سٹیٹ بنک کے ساتھ مل کر کرنسی کو مضبوط رکھتی، سٹے بازوں کے گرد گھیرا تنگ کرتی تو اس قدر مشکلات پیدا نہیں ہونی تھیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ تجارتی خسارہ بھی تھا۔ اس وقت تجارتی خسارہ 37ارب ڈالر کو چھو رہا ہے جو سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہے۔ اگر ملک میں معاشی استحکام آ گیا تو دیگر مسائل اس کے ضمن میں خودبخود حل ہو جائیں گے۔ چین نے زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے مدد کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کچھ مسلم ممالک بھی مشکل کی اس گھڑی میں ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہیں۔ امید ہے کہ چند دنوں میں جیسے ہی حکومت کی تشکیل مکمل ہوگی ڈالر سمیت تمام بین الاقوامی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہو جائے گی۔