ایک سردار جی میں کمال خوبی تھی مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے وہ غضب کے بلا نوش تھے۔ایک گو نہ بے خودی میں دن رات مست رہتے۔پیدا کرنے والے نے انہیں آنکھیں تو نہ دیں تھیں مگر سونگھنے کی حس باکمال تھی۔گلاس میں انگور کی بیٹی کسی بھی قسم یا برانڈ کی ہو،سونگھ کر بتا دتیے تھے کہ کونسی ہے؟کیسے چڑھتی ہے کیسے اترتی ہے۔آرٹ فلموںکے خوبصورت اداکار منوج باچپائی ایک پروگرام میں انوپم کھیر کو بتا رہے تھے کہ ہم اتنے غریب تھے کہ ہمیں برانڈ والی بوتل کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔بات ہو رہی تھی ان سردار جی کی جو سونگھ کر برانڈ اور حسب نسب بتا دیتے تھے۔یار لوگ ان کی اس مہارت سے حسد کرنے لگے۔ایک دن قریبی دوستوں نے طے کیا کہ آج سردار جی کو امتحان میں ڈال دیں۔پلان کے مطابق دیسی ٹھرا،برانڈڈ سکاچ اور پھر مشہور برانڈ سارے تھوڑے تھوڑے ڈال کر ایک پیگ تیار کیا اور سردار جی کو پیش کر دیا۔سردار جی گلاس سونگھتے۔۔پھر سونگھتے،اپنے وجدان،تجربے اور مہارت کو آواز دیتے۔مگر جواب نہ آتا۔سارے یار دوست دبی دبی ہسی ہنس رہے تھے۔سردار جی نے کبھی ایسا مکسچر نہ کبھی سونگھا تھا نہ پیا تھا۔زچ ہو گئے،غصے میں آ گئے اور طیش میں کہنے لگے"اے تے نئیں پتہ کہ کیہڑی کمپنی اے۔۔پر اے چلدی نظر نئیں آندی"۔ الیکشن2024ء آج ہو رہے ہیں۔بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے باقاعدہ الیکشن1970ء میں ہوئے تھے۔ون مین ون ووٹ۔مشرقی پاکستان نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو ووٹ دیے۔مغربی پاکستان میں سندھ اور پنجاب سے ووٹ لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔طاقتور اداروں نے مشرقی پاکستان کے مینڈٹ کی عزت کرنے سے انکار کر دیا۔ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔اُدھر وہ اور اِدھر ہم۔وہاں مجیب اور یہاں بھٹو۔نیا پاکستان بنا اور وہ بنگلہ دیش بن گیا۔پھر بھٹو کی جگہ جنرل ضیاء آ گیا اور پھر مشرف۔بنگلہ دیش میں مجیب کو ہٹا کر جنرل ضیاء الرحمٰن اور پھر جنرل ارشاد سامنے آئے۔فوج اور سیاستدانوں کے درمیان پاور پلے کی کھینچا تانی وہاں بھی تھی اور یہاں بھی۔پھر فرق پیدا ہو گیا۔۔اسطرح کہ بنگلہ دیش میں فوج نے ایک سیاستدان سے انڈر سٹینڈنگ کر لی۔شیخ حسینہ واجد۔۔۔(مرحوم)مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔وہ2014ء سے مسلسل برسرِ اقتدار ہیں۔تھوڑا ہی عرصہ پہلے وہاں ایک متنازعہ انتخاب ہوا۔وہ جیت گئیں۔پانچویں بار وزیر اعظم بن گئیں۔اُن کے اقتدار میں تسلسل کا فائدہ بنگلہ دیش کو کس طرح ہوا؟ورلڈ بینک کے مطابق یہ ملک دنیا میں تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت بن گئی۔اس کا شمار دنیا کے ٹاپ40معاشی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا۔وہاں کی آبادی16کروڑ ہے۔اُن کی فی کس آمدنی 2000ڈالر ہے۔اُس کی قومی آمدنی355بلین ڈالر سالانہ ہے۔1971ء میںجب وہ ہم سے جُد اہوا تو اس کا شمار غریب ترین ملکوں میں ہوتا تھا۔ 2018ء میں بلکہ اس سے بہت پہلے ہماری مقتدرا۔۔۔پراجیکٹ عمران کو لے کر بنگلہ دیش ماڈل کو یہاں نافذ کرنا چاہ رہی تھی۔بہت سے دانشوروں اور پنڈتوں کوبلایا جاتا اور بنگلہ دیش ماڈل پر بریفنگ دی جاتی۔میں ان پنڈتوں کو سنتا اور سر دُھنتا۔پھر میں نے بنگلہ دیش کے سیاسی اور معاشی ماڈل کی سٹڈی کی۔بنگلہ دیش میں فوج اور سیاستدانوں کے مابین کشمکش1971ء میں ہی شروع ہو گئی تھی۔شیخ مجیب جو ان کے بابائے قوم تھے اسی کشاکش کا ایندھن بن گئے۔حیران کن طور پر یہ پاور پلے انہیں معاشی ترقی کرنے سے نہ روک سکا۔ہمارے ہاں بھی ایک مدت سے فوج اور سیاستدانوں میں پاور پلے جاری اور ساری رہتا ہے۔ ہماری مقتدرا کافی عرصے سے جیو پالیٹکس کی جگہ جیو اکنامکس کی قائل ہو چکی ہے۔پہلے وہ اس خواب کی تعبیر عمران کی شکل میں ڈھونڈ رہے تھے۔عمران نے اپنے مزاج اور طبع کے ہاتھوں کچھ ایسا کیا کہ مقتدرا نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔باقی ماضی ہے۔اب کے بار جیو اکنامکس کی سڑک پر سفر کے لیے قرعہ فال میاں نواز شریف کے نام نکلا ہے۔تھیوری یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی طرز پر جب تک کسی سیاستدان اور سیاسی جماعت کو یکسو ہو کر کام کرنے کا موقع نہ ملے گا،ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔ آج الیکشن2024ء ہے۔ایک نہیں دو تین پنڈتوں کے مطابق اب کے بار بنگلہ دیش کی طرز پر ایک بار پھر جیو اکنامکس کے لیے دولہا نواز شریف کو بنایا جائے گااور وہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی کوشش کریں گے۔انگریزی محاورے کے مطابق چائے اور ہونٹوں کے درمیان بہت سے اتار اور چڑھائو درپیش ہیں۔کیاا لیکشن2024ء کے بعد ہم سیاسی استحکام حاصل کر لیں گے؟کیا تحریکِ انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے بعد سیاسی استحکام آ جائے گا؟کچھ فیکٹرز ایسے ہیں جو اس تجربے کو ناکامی سے دوچار کر سکتے ہیں۔آبادی کا بڑھتا ہوا دبائو اور اسے روکنا ایک چیلنج ہے۔مختلف قسم کے مذہبی طبقات کو راضی رکھنا بھی ایک مشکل عمل ہو گا۔سیاسی مافیاز۔۔کرپٹ بیورو کریسی۔۔ریئل اسٹیٹ Tycoons؟اور پھر یہ کہ اگر میاں نواز شریف کچھ مرکز گریز قوتوں سے مفاہمت کرنے کی کوشش کریں تو؟سب سے اہم فیکٹر یہ ہو گا کہ پاک بھارت تعلقات پر وہ مقتدرا کے ساتھ ایک صفحے پر آ پائیں گے؟میاں نواز شریف کو اگر پنجاب بھی مل جاتا ہے اور مریم نواز شریف چیف منسٹر بھی بن جاتی ہیں تو امتحان زیادہ مشکل ہو جائے گا۔پارٹی کے اندر طاقت کی کشمکش تیز ہو سکتی ہے۔زمین پر بے شمار ایسے مافیاز ہیں جو منتخب نمائندوں کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔کیا مسلم لیگ ن اپنی چارپائی کے نیچے جھاڑو دے سکے گی؟کیا مقتدرا کے اجزائے ترکیبی ہمیشہ یہی رہیں گے؟بعد میں آنے والے اگر کوئی اور تجربہ کرنے پر تُل گئے تو؟ضروری نہیں کہ الیکشن کے بعد جو نتیجہ آئے وہ مقتدرا کی توقعات کے مطابق ہو۔آصف زرداری،بلوچستان اور خیبر پختون خوا کیا وہ لائنToeکر لیں گے جو مقتدرا طے کرے گی؟شہباز شریف فیکٹر پر بات پھر کریں گے۔