ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا قریش کے قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں۔ جناب لوی تک جا کر آپ کے نسب کا اتصال رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے ہو جاتا ہے ۔ والدہ کا نام ’سموس بنت قیس ‘تھا جو انصار کے خاندان بنو نجار سے تھیں۔اللہ تعالیٰ نے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو نہایت صالح طبیعت عطا کی تھی۔ آپ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد ’’سیدنا سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ‘‘ سے ہوا۔ انھوں نے دعوت ِاسلام کے آغاز میں اسلام قبول کیا اور اہلیہ کے ساتھ حبشہ ہجرت بھی فرمائی ،معروف سیرت نگاروں کے نزدیک انھوں نے ہجرت ِمدینہ سے قبل مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور بعض کے نزدیک وہ شہر مکہ نہ آئے بلکہ حبشہ میں اُن کا انتقال ہوگیا۔یوں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بیوہ اور بے یارو مددگار ہوگئیں۔ ایسے میں اگر وہ اپنے قبیلے واپس جاتیں تو اہل قبیلہ ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے اور دولت دین کی حفاظت ان کے لئے مشکل ہو جاتی۔ اس وقت ان کی عمر پچپن سال تھی ،یہ وہ عمر تھی جس میں یہ امکان بہت کم ہی تھا کہ کوئی ان سے شادی کر کے پناہ گاہ مہیا کرتامگررسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی نیک بندی کو دین و دنیا کے فتنوں سے بچانے کے لیے اپنی زوجیت میں لینے کا فیصلہ فرمایا۔ دوسری طرف یہی وہ زمانہ تھا جب ام المؤمنین ، ملیکۃ العرب سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تھی۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک افسردہ رہنے لگی۔ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جاں نثار صحابیہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں عرض کی:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !سیدہ خدیجہ کے وصال کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔‘‘حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ہاں گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی ‘‘ سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک رفیق اور غم گسار کی ضرورت ہے اگر اجازت ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح ثانی کے لئے سلسلہ جنبانی کروں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے منظور فرما لیا۔سیدہ خولہ رضی اللہ عنہااب سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئیں اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش بیان کی۔سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے بہ خوشی حرم نبوی بننے پر اظہار رضامندی کیا۔ان کے والد زمعہ نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام قبول کر لیااور اپنی لخت جگر کا نکاح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چار سو درہم پر خود پڑھا دیا۔ یہ مبارک نکاح رمضان میں ہوا۔ ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے ڈھیروں ڈھیر فضائل میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کے خاندان کے بیش تر افراد کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے ان میں سے تین کے نام کچھ یوں ہیں :سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ،سیدنا مالک بن زمعہ رضی اللہ عنہ اورسیدنا عبدالرحمن بن زمعہ رضی اللہ عنہ۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بہت ہی دین دار اور سلیقہ شعار خاتون تھیں کاشانہ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں آنے کے بعد آپ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔ آپ یہ بات یقینی طور پر جانتی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب ازواج رضی اللہ عنہن سے زیادہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت فرماتے ہیں ،دوسرا عمر رسیدہ ہونے کے سبب آپ کو خیال آیا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے دوری اختیار نہ فرما لیں۔ چنانچہ آپ نے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اقدس میں فرحت و سرور داخل کرنے اور اپنا اندیشہ دور کرنے کی غرض سے اپنی باری کا دن بھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا۔ رب کریم کی طرف سے کمال وسعت قلبی آپ رضی اللہ عنہا کو عطا ہوئی تھی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کو راحت پہنچانے اور بہ روز قیامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں اٹھنے کے لئے جس عظیم ایثار و قربانی کا مظاہرہ فرمایا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا سینہ محبت رسول کا خزینہ تھا۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نہایت رحم دل اور سخی تھیں جو کچھ ان کے ہاتھ آتا تھا اسے نہایت دریا دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا دست کار تھیں، طائف کی کھالیں بنایا کرتی تھیں ،اس سے جو آمدنی ہوتی اسے راہ خدا میں خرچ کر دیتی تھیں۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ان کی خدمت میں درہموں کی ایک تھیلی ہدیہ بھیجی۔انھوں نے پوچھا اس میں کیا ہے لوگوں نے بتایا : ’درہم‘ بولیں تھیلی میں کھجوروں کی طرح؟ یہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں بانٹ دیئے کہ جس طرح کجھوریں تقسیم کی جاتی ہیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اتنے پاکیزہ اخلاق کی حامل تھیں کہ ایک دفعہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :’’ سوائے سیدہ سودہ کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ اس کے جسم میں میری روح ہوتی۔‘‘سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا دس ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئیں۔ چوں کہ دراز قد اور فربہ اندام تھیں اس لئے تیز چلنے سے مجبور تھیں۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدلفہ سے روانگی سے پہلے انھیں چلے جانے کی اجازت دے دی،تاکہ بھیڑ بھاڑ میں ان کو تکلیف نہ ہو۔حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا‘‘سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اس حکم کی نہایت سختی سے تعمیل کی اور ساری عمر گھر سے باہر نہ نکلیں۔