ہمارے ہاں عام طور سے ستمبر کے مہینے کو ستمگر کہا جاتا ہے، اس بار مگر پاکستان کے علم وادب کے شعبے کے لئے فروری سخت اور ستم گر ثابت ہوا۔ پہلے فروری کے دوسرے ہفتے ممتاز شاعر،ادیب، کالم نگاراور استاد امجدا سلام امجد دنیا سے رخصت ہوگئے،اب گزشتہ روز تیرہ فروری کو لیجنڈری اداکار، صداکار اور لکھاری ضیا محی الدین بھی چلے گئے۔ امجد صاحب بھلے چنگے تھے،رات کولوگوں سے فون پربات چیت ہوتی رہی۔ ہمارے میگزین کے ساتھی منفرد شاعر سجاد بلوچ سے بھی بات ہوئی ، صبح امجد صاحب اٹھے ہی نہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک پرسکون موت ان کا مقدر بنی۔ انتقال سے چند دن پہلے حجاز مقدس کا سفر کیا اور وہاں چند دن گزار کر خاموشی سے واپس آئے، سوشل میڈیا پر تشہیر سے گریز کیا، تاہم ان کے انتقال کے بعد ایک موبائل ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں امجد اسلام امجدروضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہیل چیئر پر بیٹھے ایک خاص کیفیت میں اپنی نعت پڑھ رہے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، بہت اچھے ، باکمال آدمی تھے، سرتاپا مثبت اور مرقع خیر ۔ امجد اسلام امجد کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ وہ بہت عمدہ شاعر تھے، ان کی رومانوی شاعری کمال کی ہے، کئی غیر معمولی پزیرائی حاصل کرنے والی خوبصورت نظمیں انہوں نے کہیں، ان کی غزلوں کو بھی قبولیت ملی،کئی اشعار ضرب المثل کی طرح مشہور ہوئے۔ احمد فراز کی طرح امجد صاحب کے کلام کو بھی نوجوانوں میں بہت پسند کیا گیا، مگرٹین ایجر شاعر کی پھبتی ان پر نہیں لگائی گئی۔ ایک وجہ تو یہ کہ ان کی شاعری میں ارتقا رہا ، انہوں نے سنجیدہ موضوعات پر بھی بہت عمدہ ، پختہ شاعری کی۔ مزاج اور فکر کے اعتبار سے بھی وہ ارتقا کے سفر میں رہے۔ ان میں خوئے دلنوازی تو تھی، مگرہمارے بعض دیگر ٹین ایجرز میں مقبول رومانٹک شاعروں کے برعکس امجد صاحب ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے، وضع دار، شائستہ ، شفیق۔ایک مشفق بزرگ کی طرح وہ ٹریٹ کرتے۔ان سے ملنے والی خواتین یا بچیاں کمفرٹیبل رہتیں۔ بڑے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان سے ملنے والے ہر ایک کو یہ گمان رہتا ہے کہ اس کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ امجد اسلام امجد اپنے کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کے باعث اپنے بے حد وسیع حلقہ احباب میں ہر ایک کو ایسے ملتے جیسے وہ ان کا خاص تعلق دار ہو۔خردنوازی ان پر ختم تھی، اپنے سے بدرجہا کم درجے کے علم اور صلاحیت رکھنے والوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ امجد صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی، مگر یہ یاد ہے کہ جس کسی نے تعارف کرایا ، امجد صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ، جی میں انہیں جانتا ہوں ، ان کے کالم دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امجد اسلام امجد جیسے بڑے شاعر، ادیب اور لکھنے والے کا یہ جملہ سن کر مجھ جیسے نوآموز پر کیا گزری ہوگی۔ پھر ایسا بہت بار ہوا۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ دوچار ماہ کے وقفے کے بعد کسی شادی میں ملاقات ہوئی تو امجد صاحب مجھے سائیڈ میں لے جا کر کہنے لگے، یار میں نے تمہاری دو تین تحریروں پر تعریفی فیڈ بیک دینا تھا، اس وقت مگر یہ یاد نہیں کہ وہ کالم کس موضوع پر تھے ، بس یہ سمجھ لو کہ اچھا لکھ رہے ہو، اسی طرح تواتر سے لکھتے رہو۔اپنی تعریف پر مبنی واقعہ سنانا نامناسب ہے،مگر امجد صاحب کے یہ جملے ان کی فراخ دلانہ سوچ اور رویے کو ظاہر کرنے کے لئے لکھے ۔ امجد صاحب کا میں نے سنڈے میگزین کے لئے تفصیلی انٹرویو بھی کیا تھا۔ میری انٹرویوز کی کتاب ان شااللہ جلد شائع ہو رہی ہے، اس میں یہ شامل ہے۔ میگزین انٹرویو کا دلچسپ قصہ ہوا۔ اس سے کچھ قبل میں نے ممتاز ادیب عبداللہ حسین کا انٹرویو کیا تھا۔ ان دنوں میں سمارٹ فون تو ہوتے نہیں تھے نہ اچھے ریکارڈر۔پرانی وضع کے واک مین سٹائل کے چھوٹے ٹیپ ریکارڈر دفتر سے ملے تھے، ان میں کیسٹ لگا کر ریکارڈنگ ہوتی۔ عبداللہ حسین نے ٹیپ ریکارڈر دیکھا تو انٹرویو سے انکار کر دیا، بولے کہ میں اس منحوس مشین کے سامنے نہیں بولنا چاہتا۔ مجبور ہو کر میں نے ٹیپ ریکارڈ ہٹا دیا اورمنت ترلا کر کے انہیں راضی کیا اور پھر پورے انٹرویو کے نوٹس لئے۔ اگلے ہفتے امجد اسلام امجد سے انٹرویو کرنا تھا، دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق میں ٹیپ ریکارڈر لے کر نہ گیا۔ امجد صاحب نے کہا، ٹیپ ریکارڈر لے آتے ، سہولت ہوجاتی۔ میں نے پچھلا واقعہ سنایا توبلند آواز میں قہقہہ لگایا ۔ بولے، وہ بزرگ آدمی ہیں،لیکن مجھے ٹیپ ریکارڈر پر انٹرویو دینے میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے۔ خیر نوٹس لینے کے سوا اور کوئی آپشن ہی نہیں تھی۔ انٹرویو سنڈے میگزین میں چھپا تو خوش ہوئے ، کہنے لگے مجھے ڈر تھا کہ کہیں نوٹس میں بات الٹ پلٹ نہ ہوجائے، مگر تم نے ایک ایک لفظ درست چھاپا۔انٹرویو میں وہ اپنے ڈراموں کے علاوہ ٹی وی انٹرٹینمنٹ اور ڈرامہ کے عمومی زوال پربڑے دکھ سے بولتے رہے۔ امجد اسلام امجد ہمارے مرشد ،بزرگ قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے کلاس فیلو اور گہرے دوست تھے ۔ شاہ صاحب سے ان کی ملاقات ہوتی تو ازراہ تلطف ناچیز کی تحریر کی ستائش کر دیتے۔ شاہ صاحب کے پاس جب حاضری ہوتی تو وہ مسکرا کر اس بات کا ذکر کرتے اور ہمارا خون سیروں بڑھ جاتا۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ امجد صاحب کا یہ رویہ بہت سوں کے ساتھ تھا۔ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا، انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دینا اور خوش دلی سے معاصرین کا تذکرہ کرنا امجد صاحب کا خاصا تھا۔ ان کی صحبت کمال کی تھی۔ ایسا شگفتہ مزاج آدمی کم ہی دیکھنے کو ملے ۔ انہیں بے شمار لطیفے، چٹکلے یاد تھے، سنانے کا انداز بھی کمال تھا، سماں باندھ دیتے۔ البتہ انہیں ریکارڈ نہ کرنے دیتے ، لکھنے سے بھی منع کر دیتے ، کہتے کہ آج کل برداشت ختم ہوگئی ہے، جس کسی کا واقعہ چھپے گا، وہ ناراض ہوجائے گا۔ امجد صاحب دل توڑنے کے بجائے جوڑنے والے آدمی تھے، زندگی بھر یہی کام کیا۔ان کے جانے کے بعد لاہور کا ادبی منظرنامہ ویران ہوجائے گا۔ امجد اسلام امجد جیسا اعلیٰ شاعر، لکھاری اور باغ وبہارشخص اب شائد ہی آئے ۔ اللہ ان پر اپنا خاص کرم فرمائے اور روح کو سکون دے، آمین۔ ضیا محی الدین طویل عرصہ سے کراچی میں مقیم تھے، ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، ایک آدھ بار انہیں پڑھنت یا ریڈنگ کرتے سنا۔ کمال انداز تھا۔ ہم لوگوں نے ضیا محی الدین کی اداکاری کا دور نہیں دیکھا، اس کے تذکرے ہی سنے ، پرانی فلموں میں جھلک موجود ہے۔ پی ٹی وی پر ضیا محی الدین شو بھی ہم سے پہلے کا تھا۔ پی ٹی وی پر کبھی کبھار اس کی کوئی پرانی جھلک دیکھ لی ، بس۔ ہم نے ضیا محی الدین کو ان کی گفتگو سے جانا ، پہچانا۔ کیا کمال کا لہجہ، ادائیگی اور تلفظ تھا۔کسی ٹی وی شو میں شریک ہوتے تو ان کی اردو میں کمال یہ ہوتا کہ کوئی لفظ بھی انگریزی کا نہ ملتا۔ سنا ہے وہ کمال کی انگریزی بولتے اور لکھتے تھے،وہی قدرت ان کی اردو ادائیگی میں تھی۔ انہیں نجانے کس نے کلاسیک ادب اور شعری ٹکڑے پڑھنے کی طرف راغب کیا، ضیا صاحب اس جانب متوجہ ہوئے اور اس فن کوانتہائے کمال تک پہنچا دیا۔ ایک زمانے میں ان کی پڑھنت کی بعض سی ڈیزخریدیں۔ طویل عرصہ میری گاڑی میں ایک سی ڈی چلتی رہی ، حتیٰ کہ وہ گھس گئی اور بعض جگہوں پر رک جاتی۔ اس میں ضیا صاحب نے پنڈت رتن ناتھ سرشار کے فسانہ آزاد کا ایک ٹکڑا پڑھا تھااور پھر ن م راشد کی لافانی نظم’’ حسن کوزہ گر‘‘ پڑھی، جسے بلامبالغہ سینکڑوں بار میں نے سنا، ہر بار روح سرشار ہوجاتی۔ مشتاق یوسفی کا ایک شگفتہ نثر پارہ اور ایک آدھ نظم کے بعد آخر میں اسد محمد خان کا مشہور افسانہ’’ مئی دادا‘‘بھی اسی سی ڈی میں تھا۔ اسد محمد خان میرے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں، ’’مئی دادا ‘‘پڑھ رکھا تھا، مگر ضیا محی الدین کی پڑھنت ایسی ہے کہ درجنوں بار یہ افسانہ سنا، ہر بار آخری حصے میںآنکھیں نم ہوجاتیں۔ محمدعلی رودولوی کے بعض خط بھی انہوں نے پڑھے ، اردو ادب سے اور انتخاب بھی۔ یوٹیوب پران کا پڑھا ہوا بہت سا کام موجود ہے، جس بدقسمت نے نہیں سنا، وہ ضرور سننے کا لطف اور حظ اٹھائے۔ امجد اسلام امجدا ور ضیا محی الدین دونوں کی زندگیوں کا ایک اہم جز مشترک ہے کہ دونوں نے بڑی زبردست زندگی گزاری، پاکستانیوں کی اوسط عمر سے زیادہ جیئے اور اس کا بھرپور استعمال کیا۔ آخری برسوں بلکہ آخری دنوں تک متحرک رہے، تخلیقی وفور سے لبریز ۔ ابھی لاہورمیں پاکستان کلچر فیسٹول ختم ہوا، کراچی آرٹس کونسل کے احمد شاہ نے یہ میلہ سجایا، اس میں ایک سیشن امجد صاحب کے ساتھ بھی تھا،ان کے مداحین منتظر تھے مگر ان کا وقت آ چکا تھا۔ اس ہفتے کے آخر میں فیض امن میلہ ہو رہا ہے، اس میں بھی ضیا محی الدین صاحب نے آنا تھا اور کہتے ہیں کہ ان کی پروگرام کی ٹکٹیں بھی فروخت ہوچکی تھیں۔امجد صاحب کی طرح ضیا صاحب اپنے آخری پروگرام نہ کر سکے، مگر انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا کچھ کردکھایا کہ شائد ہی کسی ایک آدمی کے بس کی بات ہو۔