دنیا چین اور امریکی سلطنت کے درمیان سخت مسابقت کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اس مقابلہ کا محور و مرکز ایشیا ‘ بحرالکاہل اور بحر ہند پر مشتمل خطّہ ہے۔پاکستان دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ کے اثرات سے بچ نہیں سکتا کیونکہ یہ چین کا براہِ ِراست ہمسایہ ہے اور اسکی سرمایہ کاری کا اہم مقام۔واشنگٹن اور بیجنگ کے آئندہ اقدامات اور تعلقات کی نوعیّت ہمارے ملک پر اثر انداز ہو گی۔ اگر امریکہ اور چین کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کو قوّت ِخرید کی مناسبت سے مانپا جائے تو چین زیادہ امیر ہے۔ تاہم روایتی کرنسی کی شرحِ تبادلہ کے پیمانے پر چین ابھی پیچھے ہے۔ اسکی دولت امریکی دولت کاپچہتّر فیصد ہے۔امریکی سلطنت کو تشویش ہے کہ چین اسکی توقع سے پہلے معاشی میدان اور جدید ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گیا ہے خاص طور سے ان شعبوںمیں جن سے اسکی فوجی طاقت بڑھ گئی ہے جیسے ففتھ جنریشن مواصلاتی ٹیکنالوجی‘ مصنوعی ذہانت‘ کوانٹم ٹیکنالوجی۔ تخمینہ ہے کہ اگلے پندرہ سے بیس برسوں میں چین کی معیشت ہر اعتبار سے امریکہ سے کہیں آگے نکل جائے گی اور اسکی ٹیکنالوجی امریکہ کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوگی۔دوسری طرف‘ امریکہ کی معیشت قرضوں تلے دبی ہوئی ہے۔ اسوقت امریکہ کی وفاقی حکومت کا قرض ملک کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے ایک سو دس فیصد کے برابر ہے اور یہ گراف اوپر جارہا ہے۔ اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کی خاطر انکل سام نے دو محاذوں پر کام شروع کیا ہے۔ایک‘ چینی معیشت سے فاصلہ اختیار کرنا اور دوسرے‘ایشیا میں تزویراتی اتحادوں کا قیام۔ امریکہ اور چین کی معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ امریکی کمپنیوںنے چین میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اب واشنگٹن اس عمل کی حوصلہ شکنی کررہا ہے حالانکہ دنیا کے کئی کاروباری شعبوں میں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا منافع پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ امریکہ اپنی معیشت کو چین سے جداکرنے کی حکمت ِعملی پر عمل پیرا ہے۔چین سے برآمدات پر بھاری ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں چینی کمپنیوں جیسے ہوآوے پر پابندیاں عائد کرکے ان کے آگے بڑھنے کی رفتار سست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چین کوجدید ترین ٹیکنالوجی منتقل کرنے پر پابندیاں عائدکی گئی ہیں۔ امریکیوں کو خوش فہمی تھی کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت جلد یا بدیر اسکی معاشی ترقی اور ایجادات کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گی۔ جیسے حال میں چینی حکومت نے دو بڑی ٹیک کمپنیوں دی دی اور علی بابا پر کریک ڈاؤن کیا۔امریکیوں کا اندازہ تھا کہ ایسے اقدامات سے چین میں معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جائے گی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ کمیونسٹ پارٹی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماضی میںاس قسم کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں اور چین نت نئے چلینجوں سے نپٹتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔چین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے جس کے حجم میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اسکا ہدف ہے کہ ٹیکنالوجی کیلیے امریکہ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ چین خود کفیل ہوجائے۔چین میں کروڑوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر اور سائنس دان تیار ہوچکے ہیں اور تحقیقی کاموں پر کھربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ امریکہ کی سامراجی طاقت کا انحصار معیشت سے زیادہ اسکی فوجی صلاحیت پر ہے۔ معاشی طاقت پہلے کی نسبت بہت کم رہ گئی ہے ۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں امریکہ دنیا کی مجموعی دولت کے چالیس فیصد کا حامل تھا۔ اب یہ حصّہ محض سولہ فیصد ہے۔ انکل سام عسکری طاقت کے بل پر دنیا کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں۔ امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میںامریکہ کے آٹھ سو فوجی اڈّے ہیں جہاں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس میزائل نصب ہیں جبکہ چین کا اپنی حدود سے باہر صرف ایک فوجی اڈّہ ہے‘ افریقہ کے چھوٹے سے ساحلی ملک جبوتی میں۔ امریکہ کو اپنے کسی ہمسایہ ملک سے فوجی خطرہ نہیں لیکن اسکا فوجی بجٹ آسمان کو چھورہا ہے۔ سویڈن کے تحقیقی ادارہ سپری کے مطابق امریکہ نے گزشتہ برس اپنی افواج پر پونے آٹھ سو ارب ڈالر خرچ کیے‘ چین نے صرف اڑھائی سو ارب ڈالر۔ روس کا عسکری بجٹ محض باسٹھ ارب ڈالر تھا۔ ان حقائق کے باوجود امریکی سامراج ایک نفسیاتی مریض کی طرح عسکری طاقت بڑھانے کے جنون میں مبتلا ہے ۔ مزید عسکری اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔ اسکی حکمت عملی ہے کہ چین کے خلاف ایشیا میں دیگر ممالک کیساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط بنایا جائے۔ اس خطّہ میں جاپان‘ آسٹریلیا اور انڈیا امریکہ کے اہم اتحادی ہیں ۔ وہ اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ عسکری معاہدوں کو مستحکم بنا رہا ہے۔آسٹریلیا کے ساتھ آکس کا فوجی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آسٹریلیا کو ایٹمی مواد سے چلنے والے جدید ترین بحری آبدوزوں سے لیس کیا جائے گا۔ اس عسکری اتحاد میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے یہ تنظیم بحرالکاہل سے لے کربحر ہند اوربحر اوقیانوس پر محیط علاقہ کی نگرانی کرے گی ۔ دنیا کے تین بڑے سمندروں میں امریکی سلطنت کے عسکری غلبہ کو یقینی بنائے گی۔ واشنگٹن میں خواہش ہے کہ جاپان کو آکس اتحاد کا رکن بنایا جائے۔ فی الحال امریکی سلطنت کا جاپان اور انڈیا کے ساتھ کواڈ نامی ڈھیلا ڈھالا اتحاد موجود ہے جو عسکری گروپ تو نہیں لیکن ایک تزویراتی نوعیت کا گٹھ جوڑ ہے تاکہ بیجنگ کے اثرو رسوخ کو محدود کیا جاسکے۔ جُوںجُوں امریکہ اور چین کے مقابلہ میں شدّت آئے گی پاکستان پر امریکی دباؤ بڑھے گا کہ وہ چین سے دُوری اختیار کرے اور امریکی بلاک کا حصہ بنے‘ خطہ میں اسکے اتحادی انڈیا کی بالادستی قبول کرے۔ امریکی مطالبات ماننا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ واشنگٹن سے زیادہ خطرناک پاکستان میں موجود امریکی لابی ہے جس نے لبرل ڈیموکریسی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ نئی سرد جنگ میں اپنی بقا کیلئے ہمیں گو مگو کی کیفیت سے نکلنا ہوگا ۔ چین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونا پڑے گا اور امریکی لابی کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔