کتاب کے مطابق اب تقریباً تمام پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم کے مارکیٹنگ کے شعبے کو سنبھالنے کے لیے پیشہ ور افراد کو نوکریوں پر رکھا ہے۔ ان کو ٹی وی اشتہارات، انتخابی گانوں، ہورڈنگز کے گرافکس اور اخباری اشتہارات کی باگ ڈور سونپی گئی ہے۔پرشانت کشور کے ساتھ شیو وکر م سنگھ نے 2017میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے کانگریس کے لیڈر امریندر سنگھ کی مہم کی کمان سنبھالی تھی۔ ان کی کہنا ہے کہ مہم کے آغاز میں ان کو ادراک ہوا کہ پٹیالہ کے راج گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے امریندر سنگھ کو مہاراجہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اسکے عادی اور خوش ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریندر سنگھ کی امیج ایک ایسی تھی، تو دیر سے جاگتا ہے اور ایک مہاراجہ کی طرح عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔چونکہ ان انتخابات میں ان کے مقابل عام آدمی پارٹی تھی ، جو اپنے آپ کو عوام کے قریب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اسلئے ان کی ٹیم نے امریندر سنگھ کو ہدایت دی کہ وہ اپنے آپ کو مہاراجہ کے بجائے کیپٹن کہلوائیںکیونکہ وہ فوج میں کیپٹن کے عہدے پر رہ چکے تھے۔ بس پھر کیا تھا 'پنجاب دا کپتان' کی ٹیگ لائن کو مہم کے مرکزی موضوع کے طور پر منتخب کیا گیا۔ لوگوں سے 'پنجاب دا کیپٹن' کی حمایت کرنے کے لیے مسلسل پیغام رسانی اور پرکشش مہم کے نعرے 'چوندا ہے پنجاب، کپتان دی سرکارکی تشہیر سے ماحول ہی تبدیل ہوگیا۔ پارٹی کے کارکن ووٹروں نے ان کو کپتان کہہ کر مخاطب کرنا شروع کر دیا۔اس کے علاوہ انتخابی اسٹریجسٹس کے کہنے پر سنگھ نے ریاست کے ہر اسمبلی حلقے کا دورہ کیا اور ووٹروں سے ان کو درپیش مسائل کے بارے میں تحریری درخواستیں لیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی حکومت کے اقتدار میں آنے کے پہلے 100 دنوں میں ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کریں گے۔ منصوبہ یہ تھا کہ سنگھ پنجاب کے تمام 117 اسمبلی حلقوں کا دورہ کریں گے، لیکن ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ حقیقی طور پر صرف ساٹھ سے ستر حلقوں کا احاطہ کر سکیں گے۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ الیکشن کا رخ موڑنے کے لیے کافی ہوگا۔چونکہ وہ وہی وعدے کر رہے تھے، جو ان کو عوام سے مراسلوں کی صورت میں ملے تھے، لہذا ان لوگوں نے ووٹ بھی ڈالے۔ ان انتخابات میں امریندر سنگھ کی قیادت میں کانگریس کو 77سیٹیں حاصل ہوئیں۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ابتدائی طور پر راہول گاندھی کے لیے ایک مضبوط برانڈ بنانے پر توجہ نہیں دی ۔ وہ راہول گاندھی کو پبلک کے سامنے زیادہ ایکسپوز کرنے سے کتراتے تھے۔ یہ کانگریس کی ہمیشہ سے ہی حکمت عملی رہی ہے کہ گاندھی خاندان کو پبلک کے سامنے زیادہ نہ آنے دیا جائے، تاکہ ان کے ارد گرد ایک ہالہ سا بنا رہے، جو پرانے زمانے میں راجے مہاراجوں کا خاصہ ہوتا تھا۔مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ اب سیاست اور ووٹروں کا مزاج بدل چکا تھا۔جب تک ان کو ادراک گیا، تب تک بی جے پی نے راہول گاندھی کو 'پپو' میں تبدیل کر دیا تھا۔یعنی لوگوں کو یہ باور کرادیا کہ وہ لیڈر بننے کے لائق نہیں ہیں۔ مودی نے پہلے ہی اپنے لیے ایک مضبوط برانڈ بنا لیا تھا، اس لیے ان کی غلطیاں معاف کر دی گئیں۔ ورنہ سنگھ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ مودی لاکھوں مالیت کے ڈیزائنر لباس پہنتے ہیں اور اپنے اشتہارات یا بیرون ملک دوروں پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں اس سے بھی ان کی ایک عاجزانہ پس منظر رکھنے والے 'فقیر' ہونے کی شبیہ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ سنگھ نے بعد میں بی جے پی کیلئے شمال مشرق کے کئی صوبوں میں کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ میڈیا کیلئے سرخیوں کا انتظام کرتے تھے اور سوشل میڈیا جیسے ٹولز کے ذریعے عوامی گفتگو کو ایک خاص سمت میں منتقل کرناان کے کام کا حصہ تھا۔کتاب کے مطابق انہوں نے جو الگورتھم بنایا تھا اس نے ہر بوتھ کو الگ الگ زمروں میں بانٹا تھا، یعنی ان کی سازگار، کمزور اور مشکل کی درجہ بندی کی گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران پارٹی کی کوششوں اور وسائل کو کہاں اور کس حد تک استعمال کرنا ہے۔سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کارنامہ 2018 میں شمال مشرقی صوبہ تری پورہ کو کمیونسٹوں سے چھیننا تھا۔ وہ اس صوبہ پر 25سالوں سے بر سر اقتدار تھے۔2013 کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض 1.54 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار ایک سادہ آدمی لگ رہے تھے اور انہوں نے ایماندار اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنائی تھی۔ انہیں شورش کے ایک مشکل مرحلے کے دوران ریاست کی قیادت کرنے اور امن قائم کرنے کا سہرا بھی دیا گیاتھا۔ یہ نظریاتی سپیکٹرم کے دو مخالف سروں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی ، جس کی مدد سے انہوں نے نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دی۔ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک موبائل ایپ تیار کرنے کے لیے بھی کام کیا جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ یہ بھی معلو م ہوا کہ صوبہ کے قبائلی کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ بس اس ناراضگی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ ہاتھ آگیا ، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کر دیا اور بی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے 36فیصد پہنچ گیا۔(جاری ہے)