پاکستان اپنے آئین اور بانیانِ قوم کے وژن کے مطابق ایک جمہوریہ ہے ۔ جمہوریت اگر عوامی شعور کا نام ہے تو بدقسمتی سے جمہوریت پاکستان کو زیادہ راس نہیں آتی۔جیسے ریشم کا کیڑا اپنے گرد اپنا ریشم لپیٹ لپیٹ کر اندر مر جاتا ہے ویسے ہی جمہوریت کے نام پہ عوامی شعور کچھ جڑ پکڑنے لگتاہے تو اس کایہی جرم اس کی سانس روک دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔پچھلے پینتیس سال کی تاریخ تو واضح طور پہ بتاتی ہے کہ جب جب انتخابات کے تسلسل کے نتیجے میں عوامی شعور بیدار ہونے لگتا ہے تو ایک خاص حلقے میں بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔ اکھاڑ پچھاڑکا کھیل شروع کردیا جاتا ہے۔ذرانوّے کی دہائی کا جائزہ لیں۔گیارہ سالہ آمریت کے بوجھ تلے دبی ادھ موئی جمہوریت کوسانس آیا تو اس نے وہیں سے اگلا قدم لیا جہاں سے سلسلہ توڑ دیا گیا تھا اور بے نظیر اقتدار میں آگئیں۔اگرچہ ان کے والد محترم کا سیاسی کیریئر بھی جرنیلوں کی آشیر باد کا مرہون منت تھا، مگرملک دولخت ہوجانے کے بعد انہوں نے محنت سے بطور سیاست دان اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی۔بھٹو کی مخالفت بھی بہت تھی ،اوپر سے الیکشن میں دھاندلی پر عوامی تحریک چلی، امن و امان کا مسئلہ ہوا اور چونکہ خاص حلقوں میں بے چینی شروع ہوگئی تھی توانہوں نے عوام کو اپنا مسئلہ سیاسی طور پہ حل کرنے کا موقع دینے کی بجائے خود اقتدار پر قابض ہونا بہتر سمجھا۔اب گیارہ برس بعد جمہوریت بحال ہوئی تواسی بھٹو کی صاحبزادی ایک بار پھرعوام کی نمائندہ بن کر منظر میں آگئی تھی۔لہٰذا مقتدر حلقوں نے اپنے زیر سایہ پلنے والے میاں نواز شریف کو کام میں لانے کا فیصلہ کیا،آئی جے آئی کو پیدا کیا، حفاظتی ٹیکے لگائے اورمنہ ہاتھ دھلا کرتخت پہ بٹھا دیا۔میاں نواز شریف کے متکبرانہ رویے کے باعث آئی جے آئی ٹوٹی اور جماعت اسلامی نے 93کے الیکشن میں ان کو حکومت سے محروم کیا،نتیجے میں پھرپیپلزپارٹی آئی مگر اب اس حال میں کہ اس کو سکیورٹی رسک قرار دے دیاگیااور اس کے لبرل بیانیے کے مقابل ایک پاکستانی نظریے کامذہبی بیانیہ کامیابی سے تشکیل دے دیا گیا جس کے ہیرو میاں نواز شریف تھے۔ لہٰذا ایک بارپھرحکومت مخالف تحریک چلی ،صدر صاحب نے حکومت معطل کی اور 97 میں دوبارہ میاں نواز شریف کی حکومت آئی مگر اس بار ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ۔ پورے اختیار کے باوجود یہ حکومت عوامی توقعات پر پوری نہ اتری ،اوپر سے اعلانِ واشنگٹن کر لیا، عوام میں شدید اضطراب پیدا ہوا۔ حکومت مدت پوری کرتی تو خاصا امکان تھا کہ عوام انہیں مسترد کردیتے مگر جنرل مشرف کے مارشل لا نے انہیں سیاسی موت سے بچا لیا۔عوام میں شعور آنے لگا تھا،بے چینی تو پیدا ہونی تھی!ریشم کے کیڑے نے بہت ریشم بْن لیا تھا، اب اسے مرنا تھا۔ پھر بدقسمتی کی طویل رات شروع ہوئی جو آٹھ سال چلی۔اب کے سیاسی قوتوں کو اس کھیل کی سمجھ آگئی اور انہوں نے میثاقِ جمہوریت کیا کہ ہم باہم مفاہمت سے چلیں گے،ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر کسی اور کو موقع نہیں دیں گے۔ایک ٹرم پوری اور دوسری شروع ہوئی تو بے چینی کا آغاز ہوگیاکیونکہ حکومتیں اداروں کو حد میں رکھنا سیکھنے لگی تھیں، باہم ایک دوسرے کے خلاف کیسز بنائے مگر نیم دلانہ پیروی کی۔تب ایک نیا پروجیکٹ لانچ ہوا، نئے بیانیے بنے،پوشیدہ جرائم کی فائلیں کھل گئیں، کہیں سرپرستی اورکہیں عتاب ،کہیں اٹھانا اور کہیں گرانا،وعدے وعید ایک طرف رہ گئے،قسمتوں کے فیصلے پھرنادیدہ ہاتھ میں چلے گئے۔ ہم یہ تو کہتے تھے کہ عمران خان نے لوگوں کو شعور دیا ہے، اب پتہ چلتا ہے کہ اس نے حکومت میں آکر اتنا شعور نہیں دیا تھا جتنا اپنی حکومت گروا کر دے دیا ہے۔ جو سمجھ 2008میں کچھ سیاسی قوتوں کو آگئی تھی، اب نوشتہِ دیوارہے۔ یہ تو خدشہ تھا کہ سردار بدل جائیں گے کس کو معلوم تھا ہر بار بدل جائیں گے(عزیزہ انجم)۔ اب جبکہ انتخابات ہوچکے، دھاندلی کا شور مچ گیا ہے،جوڑ توڑ بھی جاری ہیں،ایک راستہ یہ ہے کہ تینوں بڑی قوتیں ایک ہوکر مشترک مقابل کے آگے سینہ سپر ہو جائیں۔ یہ طے کرلیں کہ کچھ ہوجائے ہم نادیدہ قوتوں کے ہاتھ میں نہیں کھیلیں گے۔ سمجھوتے ہی کرنے ہیں تو ایک دوسرے سے کرلیں کسی اور سے نہیں۔ عوام میں ہماری جوجگہ بنتی ہے کم یا زیادہ اس کو تسلیم کریں مگر اپنی باؤنڈری میں کسی کو نہ گھسنے دیں۔ نواز شریف بینظیر کو سکیورٹی رسک کہتے تھے، پھر ان سے ہی میثاقِ جمہوریت کیا۔مگر اسی نواز شریف کے سیاسی شعور کی کمی کہ اپنے میڈیا سیل سے نوے کی دہائی میں عمران خان کی کردار کشی کی کامیاب مہم چلائی۔جب عمران خان کو سرپرستی میسرہوئی وہ انتقام سے بھرے ہوئے تھے،یہ انتقام انہوں نے حریف سیاستدانوں کو چوروں کا ٹولہ کہہ کر لیا۔اب یہی عمران اگر چاہے توایک اور میثاقِ جمہوریت کرے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنالے،نون لیگ کو دوبارہ زندگی اور میاں صاحب کو زبردستی کی سیٹ مل گئی ہے، فی الحال یہی کافی ہے۔ یک نکاتی فارمولے پہ اتفاق ہی ان سب کو اس صورتحال سے نکال سکتا ہے۔البتہ عمران خان کے لیے اس راستے میں اپنے ووٹر کی ناراضی کا رِسک ہے جس کو وہ ’’چوروں کے ٹولے‘‘ کے خلاف انتہائی مشتعل کرچکے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پی ٹی آئی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کردھاندلی کے خلاف ایک مؤثرملک گیر احتجاجی تحریک چلائے۔ جو کچھ پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے وہی کراچی میں جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا ہے۔بلوچستان میں بھی نتائج پر بے چینی موجود ہے۔یہ تحریک اتنی مؤثر ہو کہ عدالتوں کو انصاف دینا پڑے۔بیرونی مبصرین کی رپورٹوں کا دباؤ بھی ہے،تمام بین الاقوامی میڈیا ان انتخابات کا کچا چٹھا کھول رہا ہے کیونکہ اس کو نومئی کا ڈراوا نہیں دیا جاسکتا،کامیابی کا امکان ہے۔مگر یہ راستہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ کسی کی منظورِ نظر نہ بنے۔ یعنی کیڑے نے اب کی بار جو ریشم بْن لی ہے اس کے بعدوہ اندر ہی مرجانے سے صاف انکار کر دے۔