فیصلہ کن معرکہ تو بہرحال پنجاب میں ہی ہونا تھا۔ جہاں قومی اسمبلی کی 272 میں سے 143 نشستیں ہیں۔ یعنی اگر تینوں صوبوں کی ساری نشستیں بھی کسی ایک جماعت کو مل جائیں تو اکثریت کیلیے اسے پنجاب کے پاس ہی جانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب کی حکمراں سویلین ، فوجی قیادت نے 1954ء میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے پہلے انتخابات کے بعد جس میں مسلم لیگ کو 302 میں سے صرف 9 نشستیں ملی تھیں۔۔۔ یہ بات پلّے سے باندھ لی تھی کہ مشرقی پاکستان سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مالک کْل نہیں بن سکتے۔ 1964ء میں کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں بی ڈی سسٹم کے تحت ہونے والے الیکشن میں شکست کے بعد فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے باقاعدہ ایک کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ مشہور زمانہ جسٹس منیر تھے۔ جسٹس منیر نے مشرقی پاکستان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی رجحانات کے پس منظر میں صدر ایوب خان کویہ رپورٹ پیش کی کہ مستقبل میں مشرقی بازو کیساتھ رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اور یوں بھی اقتصادی طور پرمشرقی بازو ساتھ رہا بھی تو وہ ان کیلیے معاشی طور پر ایک بوجھ ہی بنا رہے گا۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کے چھ نکات کو اسی پس.منظر میں دیکھا جائے گا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو مغربی پاکستان کی حکمراں ایلیٹ نے جس طرح 23 سال تک زندگی کے ہر شعبے میں محروم رکھا، اْس کے بعد تو ایسا منقسم نتیجہ آنا ہی تھا۔۔۔ جس کا انجام سقوط ڈھاکہ پر ہونا تھا۔ یہ بات حیرت کی نہیں اور اسے اسلام آباد کی سویلین ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہی سمجھا جائے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو اگر پنجاب کے لئے قابلِ قبول تھے تو کیا وہ اتنے گئے گذرے تھے کہ مشرقی پاکستان سے درجن بھر نشستیں بھی حاصل نہیں کرپاتے۔ جی ہاں، پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک امیدوار بھی نہیں کھڑا کیا اور ساری انتخابی مہم کے دوران مشرقی پاکستان کے دارالخلافہ میں کوئی بڑا جلسہ تو کیا۔۔۔ ایک کارنر میٹنگ بھی نہ کی۔ ادھر عوامی لیگ نے نام کی حد تک چند امیدوار تو مغربی پاکستان سے کھڑے کئے مگر بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کو نہ تو کوئی نشست لینے میں دلچسپی تھی اور نہ ہی انہیں اس کی امید تھی۔۔۔ پاکستان کے ٹوٹنے میں تینوں بڑے کھلاڑیوں یعنی جنرل یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمان ، ذوالفقار علی بھٹو نے معذرت کیساتھ "اسکرپٹ" کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ یہ اور بات ہے کہ سفاک حکمرانوں کے اس کھیل میں لاکھوں مظلوموں کا خون بہا۔ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ذہین و فطین قائد محترم ذوالفقار علی بھٹو کے لئے یہ ایک اچھا موقع تھا کہ وہ تینوں چھوٹے صوبوں کی نمائندہ جماعتوں کیساتھ بچے کھچے پاکستان میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد رکھتے ہوئے ایک ایسا آئین تشکیل دیتے جس میں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے "سینیٹ" کاذکر کرنا جس میں برابری کی بنیاد پر چاروں صوبوں کو نمائندگی حاصل ہے، اسلئے غیر ضروری ہے کہ گذشتہ تین دہائی سے اس اپر ہائوس یعنی سینیٹ کی حیثیت ربر اسٹیمپ سے زیادہ نہیں۔ بھٹو صاحب کی پارٹی کو کیوں کہ اْس وقت پنجاب میں عوامی اور انتخابی طور پر بالادستی حاصل تھی۔۔۔ اس لئے انہوں نے مستقبل کو پیش نظرنہیں رکھا کہ۔۔ اگر کسی قومی اسمبلی میں محض ایک صوبے کی 52 فیصد نشستیں ہونگی تو پھر اقتدار کے کھیل میں اْسے ہی کلیدی حیثیت ہوگی۔ تمہید طول پکڑ گئی مگر صرف ایک مثال دینے پر ہی اکتفا کروں کہ 1970ء کے بعد جب دوسرے آزادانہ انتخابات 1988ء میں ہوئے تو اْس میں پاکستان پیپلز پارٹی مانگے تانگے کی نشستوں سے وفاق میں اقتدار میں تو آگئی۔۔ مگر صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں اْس وقت کی مسلم.لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے "جاگ پنجابی جاگ" کانعرہ لگا کر میلہ لوٹ لیا۔ تختِ پنجاب پر بیٹھنے والے شریفوں نے بی بی بے نظیر بھٹو کی 18 ماہ کی حکومت کو ایک دن بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ آئینی اور ہاں اخلاقی طور پر بھی صوبے کے وزیر اعلیٰ کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کو اپنے صوبے میں ایئرپورٹ پر استقبال کرے اور اسے خداحافظ بھی کہے۔ مگر اْس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ وہ آئینی ، جمہوری روایت کی پاسداری کرتے ہوئے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کیلئے لاہور ایئر پورٹ پر ریڈ کارپٹ بچھاتے۔ یہ ساراپس منظر یقیناً تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور ان کے جہاندیدہ رائٹ، لیفٹ ہیوی ویٹ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے پیش نظر ہوگا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب گذشتہ پانچ دہائی سے اسلام آباد کے تخت پر حکمرانوں کو بڑی شان و شوکت سے بٹھاتا بھی ہے اور پھر اسی ذلّت ورسوائی سے اسی پنجاب کی سیاسی و انتخابی طاقت پر اْن کا دھڑن تختہ بھی ہوتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں شریفوں کی مسلم لیگ ن کو جو دو تہائی اکثریت ملی تھی وہ پنجاب کے سبب ہی تھی۔ یہاں چلتے چلتے اس کی بھی وضاحت ہوجائے کہ سیاسی و انتخابی طاقت کے اعتبار سے پنجاب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سینٹرل یعنی وسطی پنجاب جسکی 141 میں سے 96 قومی اسمبلی کی نشستیں ہوتی ہیں۔ جبکہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی بیلٹ کی نصف نشستیں ہوتی ہیں۔ یعنی 46۔۔۔ یوں اصل میں پاکستان میں انتخابی اعتبار سے طاقت کا۔سرچشمہ سینٹرل پنجاب ہی ہوتا ہے۔ اور جو گذشتہ چار دہائی سے مسلم لیگ ن کا اصل گڑھ ہے۔ یوں تحریک انصاف کی قیادت خاص طورپر اْس کے کپتان عمران خان کے سر میں یہ سودا 2013 ء کی شکست کے بعد ہی سے سما چکا تھا کہ وہ اسلام آباد کا تخت پنجاب اور پھر پنجاب میں بھی سینٹرل پنجاب کے الیکٹ ایبلز کے بغیر چھین نہیں سکتے۔ 2013ء کے الیکشن میں 2008ء کے ق لیگیوں نے ن لیگ میں واپسی اختیار کی تھی جو اْس کی دو تہائی اکثریت کا سبب بنی۔ 2018 کے الیکشن آتے آتے 61 ن لیگی شریفوں کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں لگاچکے تھے۔ یہی نہیں، بچے کھچے پنجاب کے الیکٹ ایبلز نے بھی بنی گالا کی جانب دوڑ لگا دی۔ اْدھر سپریم کورٹ سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی اور پھر تاحیات اسمبلی سے باہر اور 10 سال قید کی سزا کے بعد تو یوں بھی پنجاب کے روایتی موقع پرست سیاسی گھرانوں کو جو اسٹیبلشمنٹ کارخ دیکھ کر سیاسی وفاداریاں بدلنے کی قدیم.روایت رکھنے۔۔۔ ایک ایک کر کے بازاری زبان میں کھسکنا شروع ہوگئے۔ یوں 25 جولائی سے 48 گھنٹے پہلے آنے والے پری پول سروے صاف اشارہ دے رہے تھے کہ پنجاب جہاں سے تحریک انصاف کو 2013 ء میں محض 6 نشستیں ملی تھیں۔ ہر سیٹ پر کانٹے کا مقابلہ ہے۔ ادھرالیکشن سے دو ہفتے قبل مسلم لیگ ن میں شریفوں کے بعد دوسرے بڑے حریف چوہدری نثار کا اپنی 35 سالہ دیرینہ جماعت کو چھوڑنا کچھ کم دھماکہ خیزنہ تھا۔ سابق گورنر سردار ذوالفقار کھوسہ بھی جنوبی پنجاب میں بہت بڑا دھچکا تھا۔ خسرو بختیار، فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن کا تو چھوڑنا اپنی جگہ۔۔۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ 25 جولائی میں 1970 جیسی تبدیلی کی ہوا بھی سارے ملک میں بڑے زوروں میں چلی کہ کراچی جیسے ایم کیوایم کے گڑھ میں جہاں 2013 میں تحریک انصاف کو ایک نشست ملی تھی دو تین کو چھوڑ کر 14 بلّوں نے بھاری اکثریت سے متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کا بھْس بھر دیا۔۔۔ اور تو اور ایک غریب لیاری جیالے نے۔۔۔ پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کو ایسی شکست فاش دی کہ 50 سال سے لیاری پر حکمرانی کرنے والا "بھٹو گھرانہ" دہل کر رہ گیا۔۔۔ مسلم لیگ ن کی چولیں محض پنجاب ہی میں نہیں ہلیں بلکہ سندھ ، بلوچستان، اور خیبر پختونخوا میں بھی اْس کے نامی گرامی الیکٹیبل کپتان کے ساتویں ، آٹھویں نمبر پر کھیلنے والوں کے ہاتھوں شرمناک شکست دوچار ہوئے۔ (جاری ہے)