جمعرات کا دن تمام پشتونوں کیلئے بالعموم جبکہ قبائلی علاقے کے پشتونوں کیلئے بالخصوص تاریخی دن تھا۔ آٹھویں رمضان کے اس مبارک دن کوقومی اسمبلی کے دوتہائی اراکین نے فاٹا کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دے دی۔ فاٹا انضمام کے حوالے سے آئین پاکستان کے آرٹیکل اکیاون ، انسٹھ، باسٹھ ، ایک سوچھ ، ایک سوپچپن ، دوسوچھیالیس اور آرٹیکل دوسو سینتالیس میں ترامیم کی گئی ہیںجسے اکتیسویں آئینی ترمیم کانام دے دیا گیا ہے۔ اس بل کی حمایت میں کل دوسو انتیس جبکہ مخالفت میں صرف داور کنڈی کا ایک ووٹ پڑا۔علاقہ غیر کو اپنا علاقہ بنانے کے اس کارِ خیر کاکریڈٹ حکمران جماعت نے اپنی حکومت کے باالکل آخری دنوں میں کیش کرکے گویا ایک بڑا اچھا کام کیا ہے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں فاٹاکے انضمام کی شدید مخالف جماعتوں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ف کے اراکین نے اس رائے شماری کا نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ کچھ ارکان نے مشتعل ہوکر بل کی کاپیاں بھی پھاڑ یں۔ فاٹا کے پشتون بھائیوں کو اپنے پشتونوں کا ہم پلہ بنانے اورانہیں باقی پاکستانیوں کی طرح زندگی کے سبھی بنیادی مسائل فراہم کرنے والے بل کے حق میں اپنا ووٹ دینے کے بجائے الٹا اس کی مخالفت پر شدید اصرار کرکے اچکزئی صاحب اور مولاناصاحب نے یقینا اپنے آپ اورساتھیوں کو ایک کارِ خیر سے محروم کردیا۔ ’’بولان سے چترال تک پشتونوں کا اتحاد جیسے نعرے اچکزئی صاحب کی قوم پرست جماعت پشتونخوامیپ کے منشور کا حصہ رہا ہے لیکن بدقسمتی سے فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرکے اچکزئی صاحب اور ان کی جماعت نے اپنی جماعت کے بنیادی نعرے کوخوداپنی موت مرواکردفن کردیا۔ اچکزئی صاحب تو اس بات پر مصر ہیں کہ فاٹاکا علاقہ اپنا ایک الگ اسٹیٹس رکھتاہے کیونکہ اس کے اوپر پاکستانی آئین کے سوائے چند دفعات کے باقی کااطلاق نہیں ہوتا یوں اس کو اسی جگہ پر ہی رہنے دیجیے، لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ فاٹاکی اسی الگ اور نرالی اسٹیٹس ہی نے ان غیور پشتونوںکا جینا دوبھر کردیاہے ۔شاید اچکزئی صاحب کے ہاں انصاف یہی ہے کہ خود تو بلوچستان کے مین اسٹریم اسٹیٹس سے اتنے لطف اندوز ہورہے ہیں کہ پچھلے پانچ سال سے پانچوں انگلیاں گھی میں رکھے ہوئے ہیں لیکن فاٹا کے پشتونوں کے لئے ایک ایسی اسٹیٹس کوبرقرار رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو پتھر کے زمانے سے بھی بدتر ہے۔اچکزئی صاحب بتادیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اگر فاٹا کا علاقہ بھی پہلے سے ہی بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کی طرح مین اسٹریم میں ہوتا توکیاپھر بھی اس علاقے کے آدھے پختونوں کے ساتھ دہشتگردوں اور آدھے کے ساتھ آئی ڈی پیزجیسے قابل رحم لاحقے ملحق ہوتے یا یہ بھی چمن کے پشتونوں کی طرح آسودہ حال اور معززہوتے؟ جمعرات کو قومی اسمبلی سے انضمام کا بل پاس ہونے کے بعد اچکزئی صاحب کی جماعت کے لوگوں، اب اسفندیار ولی خان ، افراسیاب خٹک اور میاں افتخار حسین کی صورت میں بھی کچھ چہرے پہچانے گئے۔ فاٹا کے پشتونوں کے یہ غم خوار ( جنہیں اللہ تعالیٰ نے پشتواور پشتونوں کی خدمت کاجذبہ ہم سے وافر مقدار میں عطاکیاہواہے) افسوس کرتے ہیں کہ چوبیس مئی کادن تاریخ کاوہ سیاہ ترین دن ہے جس دن کو نوازشریف اور اسٹبلشمنٹ نے فاٹا کی آزادی کو سلب کرکے اس کو فتح کرلیا۔ ان معترضین سے یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ اگر فاٹا کا ستائیس ہزار مربع کلومیٹر علاقہ 2018ء میں فتح ہوا ہے تو خیبر پختونخواکے وسیع وعریض علاقے اور بلوچستان کے پشتون علاقے (بشمول گلستان اور عنایت اللہ کاریز) کئی دہائیاں پہلے فتح ہوچکے ہیں، تو کیا ان علاقوں کو بھی آزادی دلوانا ان کے پروگرام میں شامل ہے یا نہیں ؟ اگر فاٹا کے علاوہ پاکستان کے آئین کے تحت چلنے والے پشتون علاقہ جات کی آزادی کا کوئی پروگرام نہیں ہے تو پھر فاٹا کے لوگوں نے کونسا جرم کیاہے کہ قیامت تک اس کے لئے ایسی آزادی مانگ رہے ہو جسے دنیا ہزار غلامی سے بھی بدتر سمجھتی ہے ؟ اسی طرح ’’ بلا تفریق پوری انسانیت کی خدمت ‘‘ جیسا دل بہلانے والا خوش نما نعرہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی دینی جماعت کا بظاہرمدعا ومقصد رہا ہے لیکن کیا فاٹا کے پچاس لاکھ سے زیادہ قابل رحم پختونوں کو باقی پاکستانیوں کا ہم پلہ بنانے سے فرق اور امتیاز کا دوہرامعیارختم ہوسکتاہے یا اس کو برقرار رکھنے سے ؟مولانا صاحب توایک لایعنی دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ فاٹا کا ادغام ایک امریکی ایجنڈا ہے اوران کی جماعت امریکی ایجنڈے کو کسی صورت بھی لاگو ہونے نہیں دے گی۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فاٹا انضمام سے ایک طرف تو مولانا صاحب کی وہاں پر وہ اجارہ داری ختم ہونے کا خطرہ ہے جو مختلف النوع طریقوں سے انہوں نے وہاں پر قائم کی ہوئی تھی ، جبکہ دوسری طرف عمران بھی چونکہ انضمام کے حق میں ہیں یوں اس سے بھی وہ ایک پیج پر کسی صورت آنا نہیں چاہتے اگرچہ لاکھوں قبائلوں کے ارمانوں کا قتل کیوں نہ ہو۔ بہر کیف فاٹاکے 27 ہزار مربع کلومیٹرزعلاقے کا خیبرپختونخوا کے چوہتر ہزار مربع کلومیٹرز علاقے کے ساتھ ایک پشتون قومی نظریے کی فطری بنیادپر انضمام ہونا کوئی اچھنبے کی بات ہرگز نہیں۔ انضمام کو عملی جامہ پہنا نے کی خاطر قبائلی پشتونوں ، اے این پی یا دیگر سیاسی جماعتیں اور کچھ صحافیوں نے جس دلیرانہ طریقے سے اس عمل کو سپورٹ کیا اسی طرح ریاست کو ایسے ہی ان قبائلی پشتونوں، اے این پی اور اس عمل کی حامی جماعتوں کی ہر جمہوری مانگ کو مِن وعن تسلیم کرنا چاہیے۔