غلام الثقلین نقوی مرحوم کا ایک افسانہ " اللہ معافی" نام کا تھا۔انہوں نے افسانے کا آغاز ایک ایسے جملے سے کیا تا کہ قارئین کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور لکھا کہ اللہ معافی بس ایک کردار کا نام ہے۔قارئین کرام اور ایڈیٹر صاحب آپ بھی پریشان نہ ہوں کہ کالم نویس آرمی چیف کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہے۔نہیں ہر گز نہیں۔ واقعہ صرف اتنا ہے کہ ہم میں سے کئی خود کو شاعروں کا آرمی چیف سمجھتے ہیں۔لہذا جہاں بھی آرمی چیف کا ذکر آئے سمجھ لیں کہ شاعروں کے آرمی چیف کا ذکر خیر ہو رہا ہے۔ہم شاعروں کی اپنی آرمی ہے۔ اس آرمی کا اپنا جی ایچ کیو ہے، اس آرمی کے اپنے کورکمانڈرز ہیں ۔ ہم شاعروں کی فوج دنیا کی کسی فوج سے تعداد میں کم نہیں۔مثلاً نوٹ کریں پاکستان کی فوج کی تعداد چھ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔جس میں خاصی تعداد ہر سال ریٹائر بھی ہو جاتی ہے ۔جو ریٹائر ہوتے ہیں ایک دو سالوں میں ان میں سے کافی انتقال کر جاتے ہیں۔ کچھ ان کی ریزرو فوج ہے یہ کل ملا کے بھی سات لاکھ کے قریب کی تعداد ہے۔اس کے مقابلے اب ہماری فوج کو گن لیں یہ کسی صورت اس تعداد کے برابر نہ بھی ہو تب بھی ہمارا ایک شاعر دس دس فوجیوں کے برابر ہے۔یوں ہماری تعداد ستر لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ہماری فوج ریٹائر بھی نہیں ہوتی اور انتقال بھی نہیں کرتی کہ وہ مر کر بھی زندہ رہتی ہے۔ رہی ریٹائرمنٹ کی بات ہمارے شاعر خواہ اسی پچاسی سال کے بھی ہو جائیں تب بھی ریٹائر نہیں ہوتے۔آپ نے سینئر شعرا کو ٹی وی کے مشاعروں میں ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ بیٹھنے کے لائق بھی نہیں رہتے اور سٹیج پر ٹانگیں پسارے پڑے ہوتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں چونکہ وہ لیٹے ہوتے ہیں اور ہلتے جلتے تک نہیں ہیں ان کو کسی ثقل ِ سماعت کی شکایت ہو گی؟ ہر گز نہیں ۔وہ ہر شعر سن رہے ہوتے ہیں۔ بس داد دینے کے لیے ہاتھ ہلانے کی سکت نہیں ہوتی مگر اس حال میں بھی وہ سروس کر رہے ہوتے ہیں۔آپ کسی بزرگ سے بزرگ اور نحیف سے نحیف شاعر کو ٹی وی مشاعرے کی دعوت دیں اگر وہ غیر حاضر ہوں تب کہنا۔فوج میں جو ریٹائرمنٹ کا تصور ہے یہ ہم میں رائج نہیں۔ایک دفعہ ہم نے اپنے کور کمانڈر سے پوچھنے کی جسارت کی تھی کہ سر آپ ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے لیتے۔آگے سے ارشاد فرمایا ہم کون سی پنشن لیتے ہیں۔لیکن آپ نوجوان نسل کا حق تو مار رہے ہیں ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا تب گویا ہوئے یہ ادب اور عروض کا میدان جنگ ہے۔ یہاں کروز میزائیل سے اتنے لوگ ہلاک نہیں ہوئے جتنے عروض میزائل سے لوگ جہنم رسید ہوتے ہیں۔ہم نے کہا جہنم رسید تو نہ کہیں انہیں تو خلد آشیانی کہنا روا ہے۔فرمانے لگے تم نے حالی کا مصرع نہیں سنا جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے وہ انہی غیر عروضی شاعروں کی طرف اشارہ کر گئے ہیں۔ ہماری فوج کا سب سے سخت محکمہ انٹیلی جنس کا ہے اور اس کا ڈی جی ہے۔ہمارے ڈی جی نقاد ہوتے ہیں ادھر شعر میں گڑبڑ ہوئی نہیں شعر کو کورٹ مارشل کر دیا جاتا ہے۔ادھر کسی نے شاعروں کی انٹیلی جنسکے ڈی جی کے سامنے اپنی غزل رکھی ادھر ڈی جی صاحب کی طبیعت جلالی ہونا شروع ہوئی ۔ ہماری شاعرفوج کا خرچہ زیرو سے بھی کم ہے یعنی ہماری فوج پلے سے خرچ کرنے میں ذرا متامل نہیں ہوتی۔کسی ٹی اے ڈی اے کا سوال ہی نہیں۔آپ فتح جنگ مشاعرہ رکھیں یا جھنگ اپنے پلے سے میدان جنگ کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ہم دو دو تین تین کی ٹولیاں بناتے ہیں تا کہ کسی کو شبخون کی اطلاع نہ ہو جائے۔ایک ٹولی دوسری ٹولی کی پوری ریکی کرتی ہے۔میدان ِ جنگ یعنی مشاعرہ گاہ میں اچانک انٹری مارتے ہیں۔اب ہمارے اصل امتحان یا میدان ِ جنگ کے سپہ سالار کے درمیان گھمسان کا رن پڑتا ہے۔پرانی جنگوں یعنی پرانے مشاعروں کا ذکر ہوتا ہے اسے آپ ہاٹ لائن کا رابطہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میدان میں سارے کور کمانڈرز چار چار غزلہ اور پنج پنج غزلہ کے ساتھ میدان میں کود پڑتے ہیں۔گولہ باری اور دوبدو لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ مارا وہ مارا کے شور میں جوان یعنی شاعر اپنے اپنے سپہ سالار کو اٹھا لیتے ہیں۔اٹھا لینے سے آپ کوئی اور مطلب نہ نکالیں یعنی وہ اپنے شاعر کو کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔رات گئے جب یہ دھوم دھڑکا ختم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جنگ چھڑوانے والی قوتیں یعنی مشاعرہ کروانے والے منتظمین میدان سے غائب ہیں۔اب نہ رات کے وقت آرام کرنے کا کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے نہ پیٹ پوجا کا انتظام۔صلح کا پیغام ان مقامی سپہ سالاروں کو بھیجا جاتا ہے اور انہیں بطور خیر سگالی آرمی چیف تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی ناشتے کی پروا کیے بغیر اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب سفر جاری ہو جاتا ہے۔چونکہ ہم ریٹائر نہیں ہوتے اور پنشن اور دیگر سہولیات کی فکر بھی نہیں ہوتی کہ اولاد کے لیے کسی چھت کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟۔ ملک کے سارے علاقوں میں ہماری کئی کالونیاں ہیں جو ڈی ایچ اے سے صاف روشن اور کشادہ ہیں۔دوسرا ہم کو ڈی ایچ اے کا کوئی شوق بھی نہیں۔ہم اپنی زمینیں بناتے ہیں جب اپنی زمین ہو اپنی بحریں ہو ں، اپنے عروضی میزائل ہوں تو فکر کاہے کی۔بس ہم کسی ایک آرمی چیف پر متفق نہیں ہوتے۔ ایک ایک کور کمانڈر آرمی چیف بنا پھرتا ہے اور اسلحہ کے نمائش کی غرض سے آدھی آدھی رات اٹھ کر نشانہ باندھتے ہیں اور چاند ماری کرتے ہیں۔ اپنی غزل ہوتی ہے اور اپنی زمین۔ اپنی توپیں اور اپنے گولے لوگوں کی بددعاؤں سے ہماری توپوں میں کیڑے بھی نہیں پڑتے اس لیے کوئی بددعا تک نہیں دیتا۔