ہمارے خمیرمیں معجزے کی گہری تمنا ہے ،جو چین نہیں لینے دیتی۔ہر کوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھے کسی مسیحا کے انتظا رمیں ہوتاہے ۔حالانکہ اللہ کے آخری رسول ﷺکا فرمان ہے :صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا ۔اس میں برکت ہوتی ہے،جو مصائب کودور کرتی اور مال میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔ عید الاضحی کی چھٹیوں میں برادر اکبر ناصر عباس تارڑکا اوورسیز ہسپتال منڈی بہائوالدین کی افتتاحی تقریب میںشرکت کامحبت بھر پیغام موصول ہوا ۔شدید خواہش کے باوجود شامل نہ ہوسکاجس کا زندگی بھر قلق رہے گا۔برسوں قبل برادر م محمد اکرم تارڑ ، محمد بخش اورمحمد انار گوندل کے ہمراہ چوٹ دھیراں میں ناصر عباس تارڑ سے ملاقات ہوئی، تو انھوں نے اس منصوبے کا ذکر کیا تھا ۔بعد ازاں انھوں نے اسے تھامے رکھا تو ایک چمن کھل اٹھا۔ناصرعباس تارڑ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک ہیں، زندگی کو جو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اوورسیز ہسپتال منڈی بہائوالدین ایک ماڈل ہسپتال ہے ۔30بیڈ پر مشتمل اس ہسپتال میں سبھی بیماریوں کے وارڈز موجود ہیں ۔منڈی بہائوالدین کے ہر قصبے کا شاید ہی کوئی ایساگھر ہو ،جس میں کوئی فرد بیرون ملک مقیم نہ ہو۔بعض گائوں میں تو کروڑوں روپے خرچ کر کے بلڈنگیں کھڑی کردی گئیں ۔جو سالہا سال سے اپنے باسیوں کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔منڈی بہائوالدین کے اوورسیز نے فیصلہ کیا کہ اپنے شہر کو ایک ماڈل بنائیں گے ۔انھوں نے سوچا اور عمل کر کے دکھا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم ! خرچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ ملک میں فقط چور طبقہ ہی نہیں،جو یہاں سے پیسہ اُچک کر بیرون ملک محلات خرید تا ہے ۔ اہل دل اور اہل خیربھی ہیں۔اوورسیز ہسپتال کا منصوبہ بنیادی طور پر 50کروڑ روپے کا تھا مگر صاحب ِبصیرت افراد نے صرف 10کروڑ روپے میں مکمل کر دیا ۔ یہ ایک بڑا ہدف تھا،شاید بہت ہی بڑا۔ لیکن اہل عزم و ہمت کیلئے کچھ بھی حدامکان سے باہر نہیں۔ اوورسیز ہسپتال ایک ایسا ماڈل ہے، جس میں اقبال و قائد کا پاکستان نظر آتا ہے ۔سینئر کالم نگار ہارون الرشیدافتتاحی تقریب میں شامل تھے ، آپ نے کہا : میں قائد و اقبال کے پاکستان کی امید لیکر واپس آیا ہوں ۔شاعر مشرق نے کہا تھا: نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی زرخیز ذہنوں کو نئی تجاویز اور صحت وتعلیم کے پروگراموں کے ساتھ سامنے آنا چاہئے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو اللہ نے بڑی نعمتوں سے نواز رکھا ہے ،وہ آگے بڑھیں، تھوڑی سی قربانی دیں، اپنا قیمتی وقت نکالیں، انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور دردمندی کی متاع بے بہا کو کسی ٹھوس کاوش میں ڈھال دیں۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھیں ۔جو ایک کے بدلے کئی گنا واپس لٹاتا ہے ۔ناصر عباس تارڑ نے ظلمت شب کا شکوہ کرنے کے بجائے ’’اپنے حصے کی شمع جلانے‘‘کا چلن عام کیا۔ تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہسپتال کھڑا ہو گیا ۔پاکستان پبلک ہیلتھ فائونڈیشن ، اخوت، الخدمت فائونڈیشن اور ہیلپنگ ہینڈجیسے اداروں نے ویرانوں کو آباد کیا، رات کو سحر کرنا تو شاید مشکل ہو لیکن اپنے حصے کی شمع‘ تاریکی کم کرسکتی ہے۔پاکستان پبلک ہیلتھ فائونڈیشن کے ساتھ اس وقت منڈی بہائوالدین اور سرگودھا میں 433تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔حالیہ سیلاب میں ان سب تنظیموں نے متاثرین کی مدد کی ۔ افتتاحی تقریب میں حاضر تو نہ ہو سکا لیکن ویڈیو لنک کے ذریعے سارا دن تقریب کے ساتھ جڑا رہا ۔لوگوں کا جوش جذبہ دیکھ کر دل شاد ہو گیا ۔ڈاکٹر فیاض رانجھا سابق ایم ایس میو ہسپتال کاخمیر بھی منڈی بہائوالدین سے زرخیز زمین سے ہے ۔ اپنے دور میں انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت میو ہسپتال میں غریب مریضوںکا مفت علاج کیا۔انھیں کے دور میں ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مفت ادویات کا رواج پڑا تھا۔انھوں نے بھی اپنی خدمات پیش کرنے کی پیشکش کی ہے ۔پروفیسر خالد مسعود گوندل نے بھی دھرتی کا قرض اتارنے کاوعدہ کیا ہے ۔ اسی طرح منڈی بہائوالدین کے ہر اوورسیز کو اس ہسپتال میں ایک بیڈ کا خرچہ اٹھانا چاہیے ۔ہمیں اپنے صدقات و خیرات اور عطیات کو کسی بڑے نظم کی لڑی میں پرونا ہوگا۔ یہ معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔نبی آخرالزماں ﷺ کا فرمان ہے :آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی۔ ایک کروڑ پاکستانی اوورسیز ہیں ۔اگر ان میں ہر کوئی ایک غریب پاکستانی کی کفالت اپنے ذمہ لے لے ۔ بطرز’’مواخات مدینہ‘‘تو چند برسوں میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے ۔ الخدمت فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن ،سویٹ ہوم کے زمرد خان،سینئر کالم نگار ہارون الرشید،سہیل وڑائچ اور پی جے میر نے بڑے شاندار الفاظ میں اوورسیز پاکستانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اس تقریب میں اوورسیز پاکستانیوں کی مائیں مہمان خصوصی تھیں ۔ان کی جگہ کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا تھا۔ وہ کیسا ہی معزز اور معتبرکیوں نہ ہوتا۔ان مائوں نے ایسے سپوت جنم دیئے ،جن کا کارنامہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور ناقابل بیان حیرت۔ رضاکارانہ جذبے سے سرشار ان افراد نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ،جوحکومتیں نہیں دے سکتیں ۔ پاکستان پبلک ہیلتھ فائونڈیشن کے زیر اہتمام چوٹ دھیراں میڈیکل کمپلیکس جدید بیماریوں کے علاج کی سہولت مہیا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چوٹ دھیراں ویلفیئر آئی ہسپتال ہے۔ جس میں فری چیک اپ فری ادویات اور آپریشن ہوتے ہیں۔ چک نمبر 9 اور چوٹ دھیراں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگایا گیاہے۔ ووکیشنل دستکاری سکول برائے خواتین ایک بہترین منصوبہ ہے۔اس سے ہنر مند خواتین آگے بڑھ کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گی، اس کار خیر میں اگر ڈاکٹر امجد ثاقب چیئرمین اخوت کا ذکر نہ کرونگا تو زیادتی ہوگی، انہوں نے ناصرعباس کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔ جس کے باعث خاص و عام میں ناصر کی مقبولیت بام عروج کو پہنچی ہے۔ خدمت کا کوئی دائرہ نہیں ہوتا ،کوئی سرحد نہیں ہوتی،اس لیے پاکستان پبلک ہیلتھ فائونڈیشن کے روح رواں کی سوچ بھی وسیع ہے ،ابھی تو صر ف ایک ہسپتال دھرتی پر قائم ہوا ،آگے اسی طرح کے کئی اور بھی منصوبے ہیں ۔لیکن ا سکے لیے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی میدان میں اترنا ہو گا ۔اخوت جو آج پاکستان سے نکل کر یورپ تک پھیل چکی ہے ۔اس کا سفر صرف 10ہزار روپے سے شروع ہوا تھا ،جی ہاں صرف دس ہزار روپے ۔ مجروح سلطانپوری نے کہا تھا : میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ایک دانشور نے کہا تھا :پریشانیاں تذکرہ کرنے سے بڑھ جاتی ہیں۔ خاموش رہنے سے کم، صبر کرنے سے ختم اور شکر کرنے سے خوشی میں بدل جاتی ہیں۔اوورسیز پاکستانی شکر کریں کہ اللہ تعالیٰ انھیں دینے والا بنایا ،لینے والا نہیں ۔