اپوزیشن کی بعض چھوٹی جماعتیں ان دنوں حکومت کے خلاف ایک بڑا اور مؤثر اتحاد بنانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ کوشش جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے دیکھنے کو ملی ہے۔ جناب فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات میں انہیں قائل کرنے کے لیے کہا کہ اپوزیشن کے عدم اتفاق رائے سے سب متاثر ہو رہے ہیں اور گرینڈ الائنس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ امیر جمعیت علمائے اسلام نے پی پی قیادت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا سب جیل میں اکٹھے ہوں گے؟ تا ہم جناب آصف علی زرداری نے پارٹی رہنمائوں سے مشاورت کا وعدہ کر کے فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپوزیشن کے اتحاد کی خبروں پر کٹیلے انداز میں باور کرایا کہ اپوزیشن کو کرپشن بحالی کے لیے اتحاد بنانا چاہیے۔ پاکستان میں کثیر الجماعتی نظام رائج ہے۔ اس نظام کا مقصد کثیر الجہتی جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے۔ چھوٹے بڑے سیاسی گروہ مل کر خود کو ریاست اور عوام کی طاقت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یہ جماعتیں داخلی طور پر اپنے دستور پر عمل کرتی ہیں مگر ریاست اور عوام کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے ریاستی آئین کی پابند ہوتی ہیں۔ جو گروہ جماعت نہیں بنتے وہ خود کو پریشر گروپ کی صورت میں زندہ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں کئی طرح کے مل مالکان، میگا تعمیراتی منصوبوںکے حامی تاجروں، توانائی منصوبوں، برآمدات اور درآمدات میں مفادات رکھنے والے اور کئی بڑے ممالک کے حامی و مخالف پریشر گروپ سرگرم رہے ہیں۔ مذہب اور قومیت کی بنیاد پر بہت سے افراد اور گروہ الگ متحرک ہیں۔ اتنے سارے گروہ پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ چھوٹی جماعتیں اور گروہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہر وقت ملک کو کسی نہ کسی بحران کا شکار بنائے رکھنے کی فکر میں رہتے ہیں۔یہ بالکل اس شخص جیسے ہیں جو اپنے ایک پائو گوشت کے لیے ہمسائے کی بھینس کو ذبح کرانے پر تلا رہتا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کا نتیجہ تحریک انصاف کی جیت کی صورت میں نکلا۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کامیاب ہوئی جبکہ 2008ء میں پیپلزپارٹی کو حکومت کا مینڈیٹ ملا۔ گزشتہ تینوں انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی ووٹروں نے دو بڑی جماعتوں سے مایوس ہو کر ان کی اتحادی رہنے والی کسی جماعت پر اعتماد نہیں کیا بلکہ ایک ایسی جماعت کو مینڈیٹ دیا جس کی ترجیحات میں بدعنوانی کا خاتمہ سرفہرست ہے۔ مالیاتی خود کفالت، عالمی برادری کے ساتھ آبرومندانہ تعلقات اور جمہوریت کو عوام دوست نظام کے طور پر مستحکم کرنا تحریک انصاف کا منشور ہے۔ ملک بھر میں منی لانڈرنگ، بدعنوانی، جعلی اکائونٹس اور سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف ایک مہم جاری ہے۔ اس مہم کی خاصیت یہ ہے کہ اس بار سب کچھ قانونی دائرے میں اور قانونی ضروریات پوری کر کے کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان متعدد بار اس سلسلے میں وضاحت کر چکے ہیں کہ ابھی تک ان کی حکومت نے کسی سیاستدان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنایا۔ مسلم لیگ، پیپلزپارٹی یا کسی دوسری جماعت کے لوگوں کو اگر نیب، ایف آئی اے اور پولیس شامل تفتیش کرتی ہے تو یہ سب وہ مقدمات ہیں جو دونوں سابق حکومتوں کے زمانے میں قائم کیے گئے اور جن پر سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر مزید کارروائی روکی جاتی رہی۔ اس کے باوجود نئی حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کا ذمہ دار قرار دینا دراصل حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ہمارے سیاستدان اس طرز فکر کو جرائم کے خاتمہ اور نظام کی شفافیت کے بجائے سیاسی انتقام کا نام دے کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالتے آئے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک کی خارجہ پالیسی ڈانوا ڈول تھی۔ کوئی ہمسایہ اور دوست ملک پاکستان کی بین الاقوامی فورمز پر حمایت پر تیار نہ تھا۔ حتیٰ کہ ترکی، چین اور ایران جیسے دوست ممالک نے دہشت گردی، دہشت گردوں کی مالی امداد، نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت اور تنازع کشمیر پر محتاط رویے کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ دس سال سے کویت نے پاکستانیوں کو ورک ویزے جاری کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے مگر کسی حکومت نے یہ پابندی ہٹوانے کے لیے کوششیں شروع نہ کیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے قطر سے ایک لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ لیا۔ بیرونی قرضوں کی شفافیت جانچنا شروع کی۔ حکومتی شخصیات نے سادگی اختیار کی۔ جن حکومتی شخصیات کے خلاف سنگین الزامات سامنے آئے انہوں نے اپنی سرکاری حیثیت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ معاشی اور مالیاتی بحران سے لے کر جمہوری نظام کی اصلاح، خارجہ امور اور قومی کو متحد کرنے سمیت بے شمار معاملات ہیں جن پر حکومت نے مختصر عرصے میں توجہ دی ہے۔ ماحولیات، جنگلات اور زراعت کی ترقی کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم ہر دوست ملک سے اس سلسلے میں مشاورت کرتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے اگر سابق حکمران جماعتوں یا ان کی اتحادی رہنے والی چھوٹی جماعتوں نے عام آدمی کے مفادات کا تحفظ کیا ہوتا اور خود کو غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں سے دور رکھا ہوتا تو عوام کسی مرحلہ پر ان کی حمایت پر آمادہ ہو جاتے مگر اپوزیشن کا اتحاد بنانے کے خواہش مندوں کی بدقسمتی کہ عوام کو احتجاجی تحریک کے لیے قائل کرنے میں انہیں کامیابی ملتی دکھائی نہیں دیتی۔ ریاست کے وسائل پر قبضہ کر کے اور سرکاری خزانے کو اپنی سیاست زندہ رکھنے کے لیے استعمال کرنے والوں کے لیے یقینا اقتدار سے دوری مشکل ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کی کوششوں سے پاکستان مشکلات سے رہائی پاتا نظر آنے لگا ہے۔ بہتر ہو گا کہ چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتیں اور پریشر گروپ قانون اور آئین کی بالادستی کو دل سے تسلیم کر کے اپنی توانائیاں نظام کو مستعد اور شفاف بنانے پر خرچ کریں۔