یقین کچھ بھی نہیں گمان کچھ بھی نہیں جو تو نہیں ہے تو سارا جہان کچھ بھی نہیں ترے ہی نام سے پہچان ہے میرے آقاؐ وگرنہ اپنا تو نام و نشان کچھ بھی نہیں کون سی صفت سے انہیں متصف کیا جائے کہ ہر تعریف اپنے عروج پر بھی ان کے شایان شان نہیں ٹھہرتی۔ کیسے ٹھہرے کہ جس ہستی پر خود خدا اور فرشتے درود بھیجتے ہوں اور اس کی امت کا ہر کام ان پر درود بھیجنے سے تکمیل کو پہنچ جاتا ہو، جن کا حوالہ دعاگوپر لگا دے، جن کا نرم و گداز خیال دل کو فرحت و انبساط سے بھر دے اور آنکھیں بے بس ہو کر چمکنے لگیں‘ ان پر کیا خامہ فرسائی۔ خود اللہ نے ورفعنالک ذکرک کہہ کر جنہیں ہمیشگی کی سند عطا کردی ہو۔ ہمارے اردو ادب کے سب سے بڑے شاعر نے کہ جو کہا تھا ’’تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘ نکتے کی بات کی تھی: غالب ثنائے خواجہ بہ یژداں گزاشتیم کآں ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است ربیع الاول کے بابرکت مہینے میں مالک نے اہل زمین کو ثمر بار کیا اور اپنا محبوبؐ کو رحمت اللعالمین بنا کر پورے عالم کو فیض یاب کیا۔ مہندر سنگھ بیدی ایسے ہی نہیں کہہ رہا کہ عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں۔ صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں۔ آپؐ کی ہستی کو دیکھنے کے لیے بصارت کے ساتھ بصیرت کی بھی ضرورت ہے۔ آپؐ تو آپؐ ہیں کہ جن کی کوئی مثال نہ مثل آپ کے صحابہ ستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں اور اہل بیت تو ہیں ہی آپؐ کے گھر والے کہ سبحان اللہ۔ قاضی حسین احمد یاد آئے کہ حمید نظامی حال میں انہوں نے امریکہ کے دورے کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ عورت کے حوالے سے کسی کے پاس بھی حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓ جیسا کوئی رول ماڈل نہیں۔ آپ ذرا اور آگے چلیں تو چراغ جلتے نظر آئیں گے۔ منیر سیفی یاد آ گئے کہ نانا کے دین کو زندہ کرنے والے نواسے کا تذکرہ انہوں نے اچھوتے انداز میں کیا: جلا بھی شدت جاں سے بجھا بھی شان سے تھا وہ اک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا میرے محترم قارئین! میں تذکرہ تو ایک نورانی محفل کا کرنے جا رہا تھا اور تمہید میں قلم رواں ہو گیا کہ تذکرہ کس کا ہے۔ لیجئے اس حوالے سے خالد احمد یاد آگئے: کس رخ کروں قصیدہ شاہ زمن تمام تشبیب ہی میں ہو گئی تاب سخن تمام ذہن میں ہے نشیب خالد احمد کا ایک اچھوتا قصیدہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ اصل میں ہمارے مربی اور نہایت نفیس دوست ملک محمد شفیق نے اپنے گھر پر ایک پاکیزہ محفل رکھی تھی جس میں تنزانیہ سے آئے ہوئے قاری رجاء ایوب جنہیں قرأت کی دنیا میں قاری عبدالباسط ثانی کہا جاتا ہے۔ تشریف لائے۔ ان کے ساتھ مصر سے قاری شیخ اسلام فکری عبدالستار تھے۔ رجاء ایوب کو ہم پچھلے برس بھی اسی جگہ سن چکے ہیں۔ اصل میں ملک حنیف کا یہ خاندان خیر و برکت کے کاموں میں بہت آگے ہے۔ قاری رجا ایوب نے قرآن حکیم سے آیات تلاوت کیں اور سماں باندھ دیا۔ ہم نے تو بے ساختہ مطالبہ کیا کہ جناب دل نہیں بھرا۔ سماعتوں میں رس گھل گیا ہے۔ دل شاد ہوا اور روح کو قرار آیا۔ رجاء ایوب مسکرائے اور مزید تلاوت کی۔ مصر سے آئے ہوئے شیخ قاری سلام فکری کی تلاوت بھی ہم نے سنی اور ہمارے مرغزار کالونی کے صدر محمد شہزاد چیمہ نے ان سے عربی میں سوال کئے اور ترجمان نے بتایا کہ ان کے بقول مصر میں تو گڑ بڑ یہ ہے کہ وہ مرضی سے ڈاڑھی بھی نہیں رکھ سکتے۔ عوام پکے مسلمان ہیں۔ پھر ہمیں مرسی یاد آئے کہ جنہوں نے کوئی کمپرومائز نہیں کیا تھا۔ مہمانوں کو بہت ہی پروٹوکول دیا گیا۔ ملک شفیق جماعت اسلامی علاقہ غربی کے امیر ہیں اور ان کے بھائی سعید ملک اور خلیل ملک نے بہت ہی زیادہ اہتمام کیا تھا اور ان کے لیے سپیشل ڈشیں تیار کیں اور دوسرے معزز مہمانوں کے لیے مرغ و ماہی کا بندوبست۔ مہمانوں میں بہت معتبر اور پیارے لوگ تھے جیسے ڈاکٹر ناصر قریشی‘ غلام عباس جلوی‘ عارف ملک‘ عبدالغفور ایڈووکیٹ‘ خانزادہ اور دوسرے۔ بہت اہم بات یہ کہ ان قرا حضرات کا سارا بندوبست سنی جماعت القراء پاکستان کرتی ہے جس کے روح رواں قاری عنایت اللہ سیالوی ہیں جو کراچی سے آئے تھے۔ وہ پاکستان بھر میں حسن قرأت کے مقابل بھی کرواتے ہیں۔ رمضان شریف میں چینلز پر قاری حضرت ان کی طرف سے آتے ہیں۔ وہ 92 نیوز میں دو تین مرتبہ پروگرام کر چکے ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر اپنی سوچ کی بات کروں گا ۔ آپؐ کی سیرت زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہے۔ پوری دنیا کو علم ہے کہ آپؐ دنیا کا پہلا پرامن انقلاب لے کر آئے جس میں ایک قطرہ خون بھی نہ بہا۔ عام معافی دے دی گئی۔ پہلا منشور عدل کہ کسی گورے کو کالے اور کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں۔ غالب پھر سامنے آ گئے: منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی قسمت کھلی ترے قد و رخ پر ظہور کی کاش اے کاش انؐ کی اتباع اور بس اتباع۔ اہل باطل کو اسی حق کے ساتھ سوا جواب دیا جاسکتا ہے۔ کوئی صلاح الدین ایوبی کوئی طارق بن زیاد اور کوئی محمد بن قاسم۔ عصا نہ ہو تو کلیمی بے کار بے بنیاد۔ آئیے ذرا اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہم اپنی پہچان‘ شناخت اور عصبیت ختم تو نہیں کربیٹھے۔ چلیے کوئی بات نہیں فریب خوردہ شاہین اگر راہ راست پر آ جائیں تو شاہ بازی ان کی فطرت میں ہے۔ والد مکرم کے دل سے نکلے ہوئے دو مطلع: تیری میری گل نہیں گل اے حضورؐ دی اکھیاں دے نور دی تے دلاں دے سرور دی گلاں نے ہزار پر گل اے اصول دی شان میرے رب دی تے رب دے رسولؐ دی