میں نے انہیں مسلمانوں کی تہذیب و تقدیر کے معمار کہا ہے۔ جو ان شخصیات اور ان اداروں کا مطالعہ اس نظر سے کرے گا‘ انہیں سمجھ آئے گا کہ ہم اپنے بادشاہوں‘ صوفیا اور علماء کے بغیر وہ نہ ہوتے جو ہم ہیں اور ہم اللہ کے فضل سے بہت کچھ ہیں ‘مبادا کوئی اسے منفی معنوں میں لے کر پھبتی کسنے بیٹھ جائے۔ یہ سب ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح تسبیح کے دانے۔ رومی اقبال کو جب سیرِافلاک پر لے جاتے ہیں تو ایک جگہ آ کر کہتے ہیں تم نے ہم درویشوں کے ٹھکانے دیکھے‘ اب ذرا سلاطین کے محلات بھی دیکھ لو سلطان ٹیپو کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے آں شہید ان محبت را امام آبروئے ہند و چین روم و شام از نگاہ خواجہ ٔبدرروحنین فقر سلطان وارث جذب حسین ہم لوگ دراصل تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اقبال بادشاہت کے خلاف تھے‘ تو کیا ان کا خیال تھاکہ ہمیں اپنے دور اول ہی میں جمہوریت کو اپنا لینا چاہیے تھا۔ ویسے تو اقبال نے جمہوریت پر اتنے خوفناک حملے کئے ہیں کہ لگتا ہے کہ اقبال جمہوریت دشمن تھے۔ یہ تک کہا کہ دوسوگدھوں کا دماغ مل کر ایک انسان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ تک کہا کہ مغرب کے جمہوری نظام کے پردوں میں عیزاز نوائے قیصری کچھ بھی نہیں اور جسے تو آزادی کی نیلم پری سمجھتا ہے وہ دراصل دیو استبداد ہے جو جمہوری قبا میں پائے کوب ہے۔ ترکی کے تجربے میں ان کی واضح دلچسپی نے اس سے پردہ اٹھا دیا کہ اس کا اصل مفہوم کیا تھا۔ ایک بار کراچی کی ایک محفل میں بحث چل نکلی ہمارے ایک ترقی پسند دوست نامور نقاد محمد علی صدیقی نے رینے گینوں(استاد عبدالواحد یحییٰ) پر اعتراض کیا کہ وہ جمہوریت کے دشمن تھے۔ میں نے فوراً عرض کیا کہ وہ تو آپ بھی جمہوریت کو بورژو اجمہوریت کہتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے لبرل مغربی دانشوروں میں کئی نام ہیں جو جمہوریت کی کوتاہیوں پر بات کرتے رہے ہیں۔ اس وقت تک مغرب میں کوئی فوکو ہامہ پیدا نہیں ہوا تھا جو جمہوریت+ سرمایہ داری کو انسانی تاریخ کی معراج کہتا ہو‘ یہ الگ بات ہے کہ اسے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ یہاں میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جمہوریت کی مخالفت کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ آپ جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ یہ تو صرف رائج الوقت نظام پر تنقید ہوتی ہے ۔انسانوں کا بنایا ہوا کوئی نظام مکمل نہیں ہوا کرتا۔ زیادہ سے زیادہ دوسرے نظاموں سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک بار یوم اقبال کے موقع پر میں نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال کے اس مصرعے کی تشریح کی تھی اور کہا تھا کہ آیا علما سے مراد امام ابوحنیفہ تھے جن کے بارے میں اقبال نے اپنی وصیت میں لکھا ہے کہ میں نظری طور پر غیر مقلدہوں‘ مگر عملی طور پر امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوں۔ میرے بچوں کے شادی بیاہ میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا جائے۔ اس دن عرض کیا تھا آپ فرزند اقبال ہیں‘ میں بھی اقبال کا روحانی بیٹا ہوں۔ آپ کی تو شادیاں ایک امام وقت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ اس لئے ملائیت کا نام لے کر علماء کو مطعون کرنا درست نہیں۔ بات بہت طویل ہو گئی ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ اقبال کے شعرو فلسفہ سے چن چن کر ایسی تحریریں پیش کی جائیں اور ان کی تشریح کی جائے جن سے معلوم ہو کہ اقبال اگر پیری کے خلاف تھے تو اس کا مطلب داتا گنج بخش ؒیا جنید بغدادی ؒ نہیں ۔ آپ تو پیری کو اس سطح پر لے آئے ہیں جیسے آج کے گدی نشین ہوں۔ جیسے شاہ محمود قریشی ہوں۔ اقبال تو فی زمانہ ان شاہینوں کے نشیمن پر زاغوںکے تصرف کے خلاف تھے۔ وگرنہ ان کا مرشد تو ایک صوفی تھا۔ جلال الدین رومیؒ کے ہاں علماء کی جو قدرو منزلت کرتے تھے‘ وہ کوئی راز نہیں ہے۔ وہ مثال کے طور پر سید سلمان ندویؒ تک کے سامنے اس طرح سوال کرتے تھے جیسے ایک علم کے جو یا تو ایک عالم دین کے سامنے کرنا چاہئے۔ رہی بادشاہت تو اقبال کے ہاں یہ جمہوریت اور ملوکیت کی بحث نہ تھی۔ اصل میں ہر زمانے کے نظام سیاست کو اس کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم فیصلے دینے لگیں۔ فلاں حکمران بہت اچھا ہو گا‘ مگر تھا تو ایک بادشاہ بلکہ جرنیل‘ معاف کیجیے گا تاریخ کا مطالعہ ایسے نہیں ہوتا۔ ہر عہد کو اس عہد کے تناظر میں پرکھنا ہوتا ہے۔ ایچ جی ویلزسے میں اس بات پر بہت خار کھاتا ہوں کہ وہ تاریخ اسلام بیان کرتے ہوئے خاصا متعصب اور شقی القلب ہو جاتا ہے۔ اس تک نے کہا کہ اسلام اس لئے مقبول اور راسخ ہوا کہ اس کا نظام اپنے زمانے کا تازہ ترین نظام سیاست تھا۔ بس یہی معیار ہوتا ہے۔ بات کو اس نکتے پر ختم کرتا ہوں کہ اقبال کی مراد اس سے ان اداروں کی اہمیت سے انکار نہ تھا‘ اقبال ایسے یک رخے نہ تھے‘ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ ان اداروں میں جو ہماری زندگیوں کی جان ہیں‘ اتنی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ اس نے ہماری روح تک کو تباہ کر دیا ہے۔ ہمارے لوگ اس بحث کے کندھوں پر بندوق رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی بھی اور فکری بھی۔ یہی دیکھئے کہ اس بحث میں بھی فتح محمد ملک صاحب ضیاء الحق کو درمیان میں لے آئے۔ بھٹو کی پارٹی میں گزارا ہوا کچھ وقت اس قسم کے تقاضے پیدا کردیا کرتا ہے۔ اقبال ان سے ماورا تھے ضیاء الحق‘ بھٹو ‘نواز شریف سب سے ماورا تھے۔ کوئی حرج نہیں ہم اقبال کو اس کی روح کے مطابق سمجھ لیں ہمارا بھی بھلا ہو گا اور اس ملک و قوم کا بھی۔ یہ بھی کوشش کریں کہ یہ دیکھ لیں تہذیب ثقافت کیسے تشکیل پاتے ہیں۔ بات ختم کرنے سے پہلے بس آخری بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری پرورش جس دور میں ہوئی اس میں کلچر کا بڑا چرچا تھا۔ ادب میں میتھیو آرنلڈ سے ٹی ایس ایلیٹ تک مباحثہ پھیلا ہوا تھا۔ سوشل سائنسز میں الگ ایک شور تھا۔ ادھر یونیسکو کی طرف سے بھی کوشش ہو رہی تھی کہ دنیا میں ایک مخصوص کلچر کو نافذ کر دیا جائے۔ جس پر ہمارے حسن عسکری نے پھبتی کسی تھی کہ ایسا نہیں کہ ہم اعلان کریں‘ آئو کلچر پیدا کریںاور کلچر پیدا ہونے لگے۔ دراصل ہمارے علمائ‘ صوفیا اور سلاطین ہمارے کلچر کی تاریخ ہیں۔ ہماری چھپی ہوئی تہذیب کی نشانیاں ہیں‘ یہی قوموں کی روح ہوا کرتی ہیں۔ اس پر بحث پھر کبھی سہی ٹی ایس ایلیٹ کا اس زمانے کا ایک فقرہ ذہن میں چپک کر رہ گیا کہ کلچر دراصل مذہب کی تجسیم(incarnation)ہوتا ہے۔ تو پھر یوں کہہ لیجیے کلچر مذہب کا اوتارہوتا ہے۔ آپ اپنے ان اداروں کو نظر انداز کریں گے تو کلچر‘ ثقافت ‘ تہذیب اورتمدن ہی سے انکار نہیں کریں گے۔ مذہب سے بھی اپنا رشتہ توڑ لیں گے‘ اب دل تو کرتا ہے یہاں میں روایت کی اس بحث کا ذکر کروں جو ہماری نسل تک ٹی ایس ایلیٹ سے رینے گینوںتک پہنچی ہے۔ مگر فی الحال اس کی گنجائش نہیں ہے کوئی اعتراض کرے گا تو بات کر لیں گے۔