اردو کے نامور نقاد، محقق اور ادیب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی (مرحوم )پر شائع ہونے والی ایک نئی کتاب کے حوالے سے گزشتہ نشست میں کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ یہ کتاب صحافی ، انٹرویور محمود الحسن نے لکھی ہے ، قوسین پبلشر لاہور نے اس حسین کتاب کو شائع کیا ہے۔ کتاب میں فاروقی صاحب کے انٹرویوز شامل کئے گئے جو محمود الحسن نے مختلف برسوں میں کئے۔ فاروقی صاحب بڑے ادیب، نقاد تو تھے ہی، مگر انہوں نے ایسے ایسے عمدہ نکات بیان کئے ہیں کہ قاری مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کا علم مستحضر تھا اور وہ کسی بھی سوال کا فوری جامع اور عمدہ جواب دے دیتے تھے۔ ان کی گفتگو کے چند اقتباسات قارئین کے لئے پیش کرر ہا ہوں۔ آج کے شدید جمود والے معاشرے میں نئی بات، نیا خیال، ذرا ہٹ کر کہا گیا فقرہ بھی نایاب ہوچکا۔ شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں : ’’شاعری یا فکشن یا کسی بھی صنف ادب کا سماج پر اثر پڑتا ہے ، یہ کہنا مشکوک ہے۔ اگر مشکوک نہیں تو متنازعہ فیہ ضرور ہے۔ دراصل ارباب اقتدار اور خاص کر آمر حضرات ہر ایسی شے سے خوف کھاتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ان کی قوت یا اختیار، حیثیت کو شک کی نظر سے دیکھتی ہو یا دیکھ سکتی ہو۔ ادب میں چونکہ یہ صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہر شے ، ہر خیال ، ہر صورت حال پر آزادانہ اظہار خیال کر سکے، اس لئے جابر طبقہ ادب سے خوف کھاتا ہے کہ نجانے کب یہ کیسی بات کہہ دے ۔ اس لئے تمام ایسے معاشروں میں جہاں جبر ہو، ادب یعنی اظہار خیال پر پابندی ہے۔ ’’یہ بات غور کرنے اور سمجھ لینے کی ہے۔ ادب یا اظہار خیال پر پابندی کی وجہ یہ نہیں کہ آمر یا ڈکٹیٹر کو ادب سے خطرہ ہوتا ہے بلکہ جابر اور آمر کو اختلاف سے ڈر لگتا ہے۔ اختلاف اس کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے، اختلاف سے اس کے آمرانہ غرور کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسے اختلاف رائے سے خوف ہے چاہے وہ اختلاف کتنے ہی کمزور الفاظ میں یا کتنے ہی کمزور انداز میں بیان کیا جائے۔ مثلاً کوئی بلاگ جس کا پڑھنے والا بلاگ نویس کے سوا کوئی نہ ہو، حکومتیں اس سے بھی ڈرتی ہیں۔ ’’اب رہی یہ بات جو بہت مشہور ہے کہ سماج پر ادب کا اثر ہوتا ہے ، تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ ہم ادیبوں نے اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ مفروضہ گھڑ لیا ہے کہ ہم سماج کے لئے اہم ہیں، ہم ملکوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔ یہ سب باتیں محض طفل تسلیاں ہیں ۔ روس کے عظیم شاعر جوزف براڈسکی نے کہا تھا، ’’اگرسماج کے لئے شاعر کو کوئی فریضہ ہے تو وہ یہ کہ اچھا لکھے۔ اگر وہ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہے تو وہ گمنامی میں غرق ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف شاعر کے تئیں سماج کا کچھ بھی فریضہ نہیں۔ ’’ یہ بات بھی درست ہے کہ ادب سے زیادہ جانب دار کوئی ہستی نہیں۔ تاریخ تو خود ہی جانب دار اور متعصب ہوتی ہے۔ یہ بات تو اب سب جانتے ہیں کہ تاریخ وہ بیانیہ ہے جو فاتح اقوام تحریر کرتی ہیں۔ ادب تو کبھی غیر جانب دار نہیں ہوتا نہ ہی ادب کسی طرح کی تاریخ ہے۔ ادب سے زیادہ موضوعی کوئی شے نہیں اور ادب سے زیادہ جانبدار بھی کوئی نہیں ۔ کامیو نے کہا تھا کہ ادیب کو کسی سیاسی فلسفیانہ یا مذہبی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ کامیو نے لیکن یہ بھی کہا تھا کہ اگر کبھی حق اور باطل کے درمیان مقابلہ ہو اور مجھے حق یا باطل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو میں حق کا انتخاب کروں گا، یعنی وہ بات جسے میں حق سمجھتا ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ حق ایسی چیز ہے جس پر ہر ایک اپنا اجارہ سمجھتا ہے ، لیکن اپنے حق کو کسی دوسرے کے حق کا تابع قرار دینا ادب کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہر ادیب کا فرض ہے کہ وہ اس چیز کے ساتھ ہو جسے وہ حق سمجھتا ہے ۔ ادب سے یہ توقع کرنا کہ وہ کسی عہد کی غیر جانبدار تاریخ ہو، یہ معصومیت کے سوا کچھ نہیں۔ ’’مجھے اس وقت اردو ادب میں کسی تحریک کا دور دورہ نظر نہیں آتااور میں اسے ادب کے لئے فال ِنیک سمجھتا ہوں۔ تحریکیں ہزار نیک نیت ہوں، لیکن وہ آمرانہ اور قاعدہ ساز ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں تخلیق کی تازہ کاری کا امکان ختم نہیں تو بہت کم ہوجاتا ہے۔ بہت پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ جدیدیت کے نام پر ایک انتشار سا پھیلا ہے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ یہ انتشار تو بڑی خوبی کی بات ہے کیونکہ اس طرح ہر تخلیقی مزاج اور تخلیقی فکر کو ظاہر ہونے اور ترقی کرنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ ’’ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ کوئی تہذیب آگے نکل جاتی ہے اور دنیا کے بڑے حصے پر حاوی ہوجاتی ہے۔ ہم نے بھی ایک زمانے میں دنیا کو فتح کیا، دنیا کے بڑے حصے پر حکمران رہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس جب طاقت تھی تو انہوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بہتر معاملہ کیا۔ اس کا بدلہ یہ ہے کہ جن کو ہم نے مہذب کیا ، وہ ہم کو غیر مہذب کہہ رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ ہم ورنیکولر ہیں یعنی ان زبانوں کے حامل جن کا رسم الخط نہیں،حالانکہ ہم پہلے سے لکھ رہے ہیں۔ انگریزی سے بھی پہلے ہم لکھ رہے ہیں۔ عربی، فارسی اور پھر اردو بنا کر ہم لکھ رہے ہیں۔ ’’انڈیا میں کانگریس کا ذہن اور دامن صاف نہیں تھا۔ سیکولرازم کی بات کرتے لیکن مسلمانوں کے حق میں نہیں بولتے تھے۔ نہرو کوشش کرتے تھے کہ سب معاملہ برابر ہو، لیکن کئی چیزوں میں پٹیل کی وجہ سے مجبور تھے۔ آہستہ آہستہ مشکلات بڑھنے لگیں، حوصلے پست ہونے لگے۔ اردو کا سب سے برا حال یوپی میں ہوا، جہاں ذریعہ تعلیم اردو نہ رہا اور ہندی فوری رائج کر دی گئی۔ انگریز دور میں ریزرویشن (کوٹہ) تھا، جس کی بنا پر پولیس ، ریلوے وغیرہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہر وقت نظر آتی تھی۔ انڈین آئین میں بھی ریزرویشن کو برقرار رکھنا چاہا لیکن مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ نہیں اب سب ایک قوم ہیں، ہم مسلمانوں کے لئے الگ سے ریزرویشن کوٹہ نہیں رکھیں گے۔ یہ بات مسلمانوں کے خلاف گئی ۔ مولانا آزاد اور دیگر لوگوں نے اپنے لحاظ سے تو بہتر سوچا کہ ریزرویشن نہ ہونے سے قومی یکجہتی میں مدد ملے گی اور مسلمان اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھیں گے۔ یک جہتی تو اب تک نہیں ہوئی اور نہ مسلمانوں نے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھا۔ ’’محمد حسن عسکری کے مطالعے کی وسعت نے شروع میں میری بہت ہمت شکنی کی۔ اتنا پڑھنا اور پھر اتنا دور تک جا کر مغرب کو دیکھنا اور پھر اس کو مشرق سے بھی متعلق رکھنا۔ میں نے سوچا کہ یہ تومیرے بس میں ہے ہی نہیں۔مجھے عسکری صاحب کی نثر نے فوراً ہی متاثر کیا۔ بہت ہی عمدہ نثر اور مشکل سے مشکل معاملے کو پانی کر دینے والی نثر۔ دوسر ا ان کی نگاہ اتنی نکتہ بیں تھیں کہ دور دور کی چیزوں کو جو ان کے طلب کی ہیں یا جن سے کوئی ادبی موازنہ یا تقابل بن سکتا ہے، انہیں وہ فوراً ڈھونڈ لیتے تھے ۔ یہ بات مجھے عسکری صاحب سے معلوم ہوئی کہ دو مختلف چیزوں کو بھی کسی خاص ذہنی یا علمی تناظر میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’محمدحسن عسکری صاحب سے ادب کے معاملے میں بہت سے نکتے سیکھے۔ مثال کے طور پر یہ کہنا غلط ہے کہ ترجمے میں ترجمہ پن نظر نہ آئے۔حالانکہ ہم لوگ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ بھئی ترجمہ اتنا عمدہ ہے کہ ترجمہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔عسکری صاحب کی بات کتنی بڑی بات ہے آپ خود ہی سوچئے۔ میں نے ان سے سیکھا کہ ترجمے کی یہ پہلی شرط بالکل نہیں ہے کہ ترجمہ طبع زاد معلوم ہو بلکہ جس زبان سے ترجمہ کر رہے ہیں، اس زبان کے ذائقے کا، اس کے مزاج کا رنگ آنا چاہیے ۔ ’’عسکری صاحب کا قول تھا کہ ہر تہذیب کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ادبی، تہذیبی اور فنی اصول خود مقرر کرے ۔ یہ بالکل سامنے کی بات لگتی ہے کہ سب کو معلوم ہونا چاہیے لیکن جب تک عسکری صاحب نے نہیں کی تھی، ہمیں بالکل معلوم نہیں تھی۔ کلیم الدین احمد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انہیں شکایت ہے غالب نے سانیٹ کیوں نہیں لکھا؟ میں نے جواب میں لکھا، میری شکایت یہ ہوسکتی ہے کہ ورڈزورتھ نے غزل کیوں نہیں لکھی۔ مجھے یہ عسکری صاحب نے سکھایا، ورنہ یہ میرے ذہن میں بالکل نہ آتی۔ عسکری صاحب کے ہاں آپ کو ہر مضمون میں کوئی نہ کوئی ایسا نکتہ نظر آجائے تو جو بہت ہی بڑا نکتہ ہوگا۔ بعض جگہ انہوں نے اس نکتہ کو بڑھایا ہے بعض جگہ کہہ کر چھوڑ دیا ہے لیکن رکھا ضرور ہے جو آپ کو غوروفکر کا سامان مہیا کرتا ہے۔‘‘ (جاری ہے )