ملک کی دو بڑی اور سابق حکمران جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنا جمہوری کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے حالیہ رابطوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کی صورت میں دونوں جماعتیں مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گی۔ ایک اور مثبت امر یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے دوسری جماعتوں سے کہا گیا تھا کہ ان کے نومنتخب ارکان حلف برداری کے عمل میں شرکت نہ کر کے انتخابی عمل کو ناقابل قبول قرار دیں۔ مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز کو ایم ایم اے میں شامل بڑی جماعت، جماعت اسلامی نے مسترد کر دیا ہے۔ صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں چند نشستوں کی مالک اے این پی نے بھی مولانا فضل الرحمن کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتخابات عوام کے حق حکمرانی کی تجدید کا نام ہے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کس نمائندے نے قوم کی خدمت کی اور کونسا ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتا رہا، اس کا فیصلہ ووٹ کی صورت میں ہو جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں 2013ء کے بعد تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ قبل ازیں اس صوبے میں اے این پی، متحدہ مجلس عمل اور اس سے پہلے پیپلزپارٹی و مسلم لیگ نواز کی حکومتیں رہی ہیں۔ کہا جاتا رہا ہے کہ اس صوبے کے عوام نے کبھی کسی جماعت کو غیر تسلی بخش کارکردگی دکھانے پر دوسرا موقع نہیں دیا۔ تحریک انصاف نے پولیس، صحت اور ماحولیات کے شعبے پر خصوصی توجہ دی، انتظامی سطح پر بہتری کی کوشش کی جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ یہ ایک معمول کا سیاسی عمل ہے۔ سیاسی جماعتیں اسی طرح اقتدار میں آ کر عوام کی بہبود کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ فرق صرف یہ ظاہر ہوا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں مخصوص خاندانوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے عوام کے مسائل سے لاتعلق ہوتی گئیں۔ ان جماعتوں کی قیادت نے کبھی سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے بارے میں لوگوں کی رائے کیوں بدل رہی ہے۔ سابق حکمران جماعتوں نے عوام کی خواہشات کو بری طرح نظرانداز کیا۔ پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی تجویز کو مسترد کرنے والی جماعتیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ 1977ء کے انتخابات کے بعد پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کہہ رہی ہے کہ اسے انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں لیکن جمہوری تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ ہارنے والے سیاسی رہنما پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اپنے اراکین کو حلف اٹھانے کا موقع دیں۔ اس طرح وہ نظام میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ 2013ء کے انتخابی نتائج کو تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے ریٹرننگ افسران کے انتخابات قرار دیا تھا۔ اس وقت بھی چھوٹی جماعتوں نے دھاندلی کا شور کیا تھا۔ دھاندلی کی بات کرنے والوں نے تا ہم تحقیقات کے مطالبے کو سرگرمی سے بلند نہیں کیا۔ اس وقت تحریک انصاف نے دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جسے حکومت نے مسترد کر دیا۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے نتیجے میں جسٹس(ر) ناصر الملک کی سربراہی میں عدالتی کمشن نے تحقیقات کیں۔ کمشن نے منظم دھاندلی کی بجائے بد انتظامی کو ذمہ دار قرار دیا۔ تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا مؤقف پیش کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے انتخابی اصلاحات پر کام کیا۔ سابق حکومت نے 3سال کے غور و فکر کے بعد انتخابی اصلاحات 2017ء کا قانون منظور کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام سمیت تمام جماعتوں نے اس وقت اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے انجام دیا ہوتا تو انتخابی عمل کے دوران سامنے آنے والی کئی بدانتظامیوں کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ اب اگر انتخابات میں آر ٹی ایس نظام کے جام ہونے، فارم 45کی تاخیر سے فراہمی جیسے معاملات پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس سے انتخابی نتائج بدل گئے۔ حالیہ انتخابات میں جو انتظامی خرابیاں تھیں ان کی نشاندہی فافن اور یورپی یونین کے مبصرین نے بڑے مناسب انداز میں کر دی ہے۔ عالمی مبصرین نے انتخابی ماحول اور ووٹروں کے رجحان کے بارے میں بھی اپنے جائزے پیش کیے تا ہم ان مبصرین نے دھاندلی کی مکمل طور پر نفی کی ہے۔ اب جس بات کی گواہی بین الاقوامی مبصرین دے رہے ہیں اسے کس طرح متنازع یا دھاندلی زدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام نے انتہائی مشکل حالات میں جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں خود کش حملے شروع ہو گئے۔ پشاور، بنوں اور مستونگ میں ایسے حملوں کے نتیجے میں دو امیدوار اور ڈیڑھ سو کے قریب شہری شہید ہو گئے۔ پاکستان کے عوام نے ان خطرات کے باوجود انتخابات میں حصہ لیا۔ یہ جمہوریت سے عوام کی وابستگی کی روشن علامت ہے کہ وہ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلے۔ اب اگر کوئی صرف اپنے ہارنے کی وجہ سے پورے جمہوری نظام کو دائو پر لگانا چاہے اور ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے والوں کی قربانیوں کو ضائع کرنے پر بضد ہو تو اسے قابل تحسین نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جمہوریت ایسا عمل ہے جو تسلسل کی صورت میں پروان چڑھتا ہے۔ ہر معاشرے میں سیاسی و انتظامی نوعیت کی خرابیاں رہی ہیں۔ نیت درست ہو اور عزم موجود ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ خرابیاں دور ہوتی جاتی ہیں۔ کیا ہمارے ہاں یہ بات کم اہمیت کی حامل ہے کہ حالیہ انتخابات میں عوام نے موروثی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ چند سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خاندان حکمرانی کا تسلط ختم ہو پائے گا۔ اسی طرح برسراقتدار وزیر اعظم کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت اور پھر جمہوری نظام کو ہلائے بغیر اسے سزا ہونا کیا اس بات کی علامت نہیں کہ ہماری جمہوریت صحت مند اشارے دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی شکست پر مایوسی اور غصے کا اظہار جلد بازی اور نامناسب صورت میں کیا۔ ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں نے مولانا کے مؤقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی تنہائی کا باعث بنا ہے۔ امید ہے جے یو آئی اور دوسری جماعتیں پاکستان کو لاحق مسائل کا خیال کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں گی اور ان لوگوں کی آرزوئوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں گی جنہوں نے انہیں پارلیمنٹ میں جا کر کردار ادا کرنے کے لیے ووٹ دیا ہے۔