برادر بزرگ سجاد میر نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین مرحوم کا تذکرہ کرتے ہوئے کراچی میں اپنے ورود مسعود کی بھولی بسری تاریخ دہرا دی ہے۔ وہ محترم الطاف حسن قریشی کے سیاسی ہفتہ روزہ زندگی کے کار سپانڈنٹ کی حیثیت میں یہاں آئے تھے اور یہیں کے ہو رہے تھے۔ ان کے پاس ہرے رنگ کی ایک موٹرسائیکل تھی، جسے ان کے دوست احباب میر صاحب کا طوطا کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ زندگی کی اشاعت تعطل کا شکار ہوئی تو میر صاحب نے اپنے سیاسی ہفت روزہ کا’’ تعبیر‘‘ کے نام سے ڈول ڈالا۔ اس کے ادارتی امور کے دیکھ ریکھ کے لیے انہوں نے لاہور سے برادرم ہارون رشید کو بلایا۔ آج ہارون رشید کا شمار صف اول کے کالم نگار اور سیاسی مبصروں میں شمار ہوتا ہے۔ تب اس پیشے میں ان کی شروعات کا زمانہ تھا۔ میں ان دنوں مجیب الرحمان شامی صاحب کے ہفت روزہ بادبان سے وابستہ تھا۔ مجھے یاد ہے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رحلت جب امریکہ میں ہوئی اور ان کا جسد خاکی طیارے سے پہلے کراچی لایا گیا،تو کراچی ایئر پورٹ پر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہارون رشید اور اس خاکسار نے اپنے اپنے رسالوں میں اس کی رپورٹنگ کی تو اشاعت کے بعد ہارون صاحب نے ناچیز کی رپورٹ کی کمال فیاضی سے داد دی تھی۔حالانکہ ہارون رشید اس وقت بھی صاحب اسلوب تھے اور آج کی طرح نہایت پرتاثیر نثر لکھتے تھے۔ ’’تعبیر‘‘ بند ہوا تو وہ واپس لوٹ گئے اور میر صاحب نے کچھ عرصہ بعد سندھی اخبار الوحید نکال لیا۔ ہاکی سٹیڈیم میں ان کے اخبا رکا دفتر تھا۔ الوحید بند ہوا تو میر صاحب مشرق وسطیٰ سدھار گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو حریت اور بعد میں نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہو گئے۔ ان کی زندگی پر وہ شعر صادق آتا ہے کہ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے ِادھر نکلے۔ کالم نگاری ان کی نوائے وقت سے شروع ہوئی۔ شہر آشوب کالم کا عنوان رکھا تو ایک ذرا سی مدت بعد شہر واقعی شہر آشوب کی تصویر بن گیا۔ اپنے کالم میں میر صاحب نے ان واقعات یعنی اپنی زندگی کے ان پہلوئوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ انہیں شاید یاد نہ ہو کہ جس روز ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تھی اس روز میں ان کے ساتھ ہی پاکستان ٹائمز کے دفتر میں یبٹھا تھا۔ ہم دونوں گم سم بیٹھے تھے۔ شہر پہ ایک پر ہول سناٹا طاری تھا۔ ایک پتہ بھی کھڑکتا تھا تو دل دھڑکتا تھا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کی گرفت مضبوط کرنے کے لیے معاشرے کو تقسیم کرنے کی پالیسی اپنائی تو پی ایف یو جے بھی دو حصوں میں بٹ گئی۔ منہاج برنا گروپ اور دستوری گروپ۔ تب مجھے یہ بھی یاد ہے کہ دستوری گروپ کے دائیں بازو کے صحافی کراچی پریس کلب میں اپنے وجود کا احساس دلانے بلکہ اسے منوانے کے لیے ہر شام اکٹھا ہو جاتے تھے۔ ان میں صاحب طرز کالم نگار ابن الحسن اور خود میر صاحب بھی شامل تھے۔ یہ تقسیم آج تک برقرار ہے حالانکہ اب نہ وہ صحافتی ماحول رہا نہ مباحث رہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر یہ تقسیم کیوں؟ ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا بھٹو کی پھانسی کے دنوں کا۔ بادبان کے نمائندے کی حیثیت سے کوریج کے لیے ان ہی دنوں میں 70 کلفٹن گیا تھا جو بھٹو کی مشہور زمانہ کوٹھی تھی۔ کوٹھی اندرون سندھ سے آئے ہوئے پیپلزپارٹی کے غریب کارکنوں سے بھری ہوئی تھی۔ نوجوان بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ کوٹھی کی فضا پر رنج و غم کے بادل چھٹائے ہوئے تھے۔ تبھی بے نظیر نے شکستہ دل کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نہات پرجوش تقریر کی۔ ان کے جوش و جذبے اور ہمت و حوصلے نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہیں فاروق لغاری سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے میرے رسالے کے بارے میں استفسار کیا اور یہ سن کر کہ میں شامی صاحب کے رسالے بادبان سے منسلک ہوں۔ ہنس کر بولے: بھائی ہم پیپلزپارٹی والوں سے آپ کے رسالے سے کیا تعلق؟ یہی فاروق لغاری‘ بے نظیر کی آشیر باد سے صدر مملکت بنے اور پھر ان ہی کی حکومت برطرف کردی۔ غالباً یہ کہتے ہوئے کہ میرا پیپلزپارٹی اور بے نظیر سے کیا تعلق؟ یہ ہمارے ملک کی سیاست کی ابوالعجبی ہے۔ جس میں کبھی بھی سیاست دان یا سیاسی پارٹی کا قلابازی کھا جانا اور وہ بھی بڑی ڈھٹائی اور بے ظرمی سے ذرا بھی تعجب خیز نہیں۔ بہرکیف‘ 70 کلفٹن کی اس شام کی روداد میں نے ادبی اسلوب میں قلمبند کر کے بادبان کو بھیج دی۔اس زمانے میں ہم صحافی اپنے مکتوب پی آئی اے کے دفتر جا کر ڈسپیج کیا کرتے تھے۔ کیسا مشقتوں کا زمانہ تھا‘ آج کتنی آسانیاں ہیں مگر صحافت کا لطف جاتا رہا۔خیر مجیب الرحمان شامی صاحب جو رپورٹوں اور مکتوبوں پر سرخیاں جمانے میں بے مثال صلاحیت رکھتے ہیں‘ نہایت عمدہ سرخی کے ساتھ یہ رپورٹ شائع کردی۔ اب سرخیوں کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کردوں کہ سرخیاں جمانے میں شامی صاحب کے بعد جس دوسرے ایڈیٹر کے کمال کا میں معترف ہوں‘ وہ محمد صلاح الدین تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں سلام اللہ ٹیپو نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر کے کابل ایئرپورٹ پر اتارا اور اپنے مطالبات پیش کئے تو جنرل ضیاء نے کمال فیاضی سے وہ مطالبات مان لیے۔ صلاح الدین صاحب کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ نیوز روم میں جب یہ اخبار تیار ہو گئی تو صلاح الدین صاحب نے یہ چونکا دینے والی سرخی لگائی۔ ’’حکومت اور ہائی جیکروں میں سمجھوتا ہوگیا‘‘ صرف اس سرخی کی وجہ سے اگلے دن اخبار کی فروخت بہت زیادہ ہوئی۔ شامی صاحب کی بھی ایک سرخی کا ذکر کردوں۔ مولانا مودودی مرحوم کی وفات پر میں نے حالت دل گرفتی میں ایک تاثراتی تحریر لکھ کر شامی صاحب کو بھیجی۔ انہوں نے اس کا عنوان دیا: ’’نہ چین آیا‘ نہ نیند آئی نہ خواب آیا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ عنوان میں تحریر کی روح سمٹ آئی تھی اور قارئین کو پرکشش انداز میں دعوت مطالعہ دے رہی تھی۔شامی صاحب بھی ہماری صحافت کی ایک تاریخ ہیں۔کاش وہ اپنی خودنوشت لکھنے کی طرف متوجہ ہوں تو بہت سے راز ہائے درون سینہ صحافتی تاریخ کے صفحات پہ محفوظ ہو جائیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے بزرگ صحافیوں نے اپنی اپنی خودنوشت لکھنے پہ کبھی توجہ نہیں کی اور نہ جانے کتنے اہم اور بڑے بڑے حقائق اپنے سینوں میں لیے دنیا سے چلے گئے۔ڈان کے الطاف حسین‘ جنگ کے میر خلیل الرحمن‘ نوائے وقت کے حمید نظامی‘ غرض کہ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اگر کبھی ہماری قومی صحافت کی تاریخ لکھی گئی تو وہ کتنی ادھوری اور نامکمل ہوگی۔ یورپ اور امریکہ حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی یہ صورت حال نہیں ہے۔ وہاں کے صحافی حضرات اپنی خود نوشت لکھتے ہیں اور وہ سب کچھ لکھ دیتے ہیں جس سے پس پردہ حقائق منظر عام پہ آ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو آج تک قومی صحافت کی کوئی ڈھنگ کی تاریخ ہی نہیں لکھی گئی۔ اگر ضمیر نیازی نے ’’پریس ان چین‘‘ اور مزید دو کتابیں نہ لکھی ہوتیں تو صحافت کی تاریخ نویسی میں ہمیشہ کے لیے ایک خلا رہ جاتا۔ شاید ہمارے صحافیوں کو کتب نویسی کے لیے جس یکسوئی اور محنت شاقہ اور فرصت درکار ہوتی ہے یہ نعمتیں نصیب ہی نہیں۔ لیکن اگر ارادہ نیک اور نیت صادق ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں۔ جب میں محترم الطاف حسن قریشی کی صحافتی خدمات پر ’’الطاف صحافت‘‘ مرتب کر رہا تھا تو الطاف صاحب سے اپنی قابل ذکر یادداشتیں رقم کرنے کی درخواست کی اور انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی جو مضمون لکھا اسے پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اگر نہ لکھتے تو کتنا نقصان ہو جاتا۔ سجاد میر صاحب اور ہارون رشید صاحب آپ سن رہے ہیں نا!