ان ہی پہاڑوں میں ناگا قبیلہ اس علاقہ کا انضمام پاس کے صوبہ ناگا لینڈ سے کرکے وسیع ناگا لینڈ بنانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ اسمبلی میں فی الوقت 60سیٹیں ہیں، جن میں 40پر میتی قبیلہ کی اکثریت ہے، جبکہ بقیہ دس ، دس سیٹیں بالترتیب کوکی اور ناگا کے حصہ میں آتی ہیں۔مسلمانوں کی آبادی تقریباً8فیصد کے لگ بھگ ہے۔ وہ میتی زبان ہی بولتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت 17 ویں صدی میں مغل شہزادے شاہ شجاع کے ساتھ وارد ہو ئی تھی۔ شہنشاہ اورنگ زیب کے عتاب سے بچنے کیلئے اسکے بھائی شاہ شجاع نے منی پور میں پناہ لی تھی۔ خیر چند تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مختلف ادوار میں جیسے برما یا میانمار سے اراکان، بنگالی، کاچھر اور پھر خود منی پور میں اسلام قبول کرنے والوں کے درمیان اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی ، مگر انہوں نے اپنے آپ کو اکثریتی آباد ی کے ساتھ ضم کرکے ان کی ہی زبان کو اپنایا،جس میں پہلی بار 1993میں دراڑ پڑ ی۔ اس پورے خطے میں 230قبائلی گروپوں میں سے 43قبائلیوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کوٹا کی سہولت مہیا ہے۔ اسکے علاوہ ان کی زمینوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ منی پور میں یہ سہولت کوکی قبیلہ کو حاصل ہے۔ میتی قبیلہ اس سہولت کی خاطر کئی دہائیوں سے برسرپیکار تھا۔ مئی میں ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ کہ ان کو درج فہرست درجہ دینے کی درخواست پر عمل کیا جائے۔ جس کی کوکی قبیلہ نے بھر پور مخالفت کی۔ کیونکہ ان کو لگا کہ ایک تو ان کا کوٹا میتی قبیلہ لے جائیگا ۔ میتی قبیلہ گو کہ اکثریت میں ہے، مگر وہ صرف 10 فیصد زمین تک محدود ہے۔ غیر درج فہرست قبائلی ہونے کے ناطے وہ پہاڑیوں میں زمین نہیں خرید سکتے ۔ اب اس فیصلہ کے بعد وہ ریاست کے بقیہ 90 فیصد علاقے میں پاوں پسار سکتے تھے۔ کوکی قبیلہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف 3 مئی کو احتجاج کی کال دی ، جس کے رد عمل میں میتی قبیلہ میدا ن میں آگیا اور نسلی تشدد بھڑک اٹھا۔ جس کی آگ ابھی تک ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ فسادات میں ہلاکتوں کے علاوہ 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس علاقہ میںسینکڑوں عبادت گاہیں جلائی گئی ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے جان بوجھ کر پہاڑوں کی انتظامیہ کو میدانی علاقوں سے الگ کر کے پہاڑی وادی کی تقسیم متعارف کروائی۔بعد میں مذہبی تقسیم نے معاملات کو مزید الجھا دیا۔ جہاں میتیوں نے ہندو مت کی شاخ وشنو مت کو اپنایا جس کی سرپرستی ان کے بادشاہوں نے کی۔ منی پور اور پہاڑی لوگوں کو مشنریوں نے عیسائی بنادیا ۔ ان کو پہاڑی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔اس علاقے میں ان گنت عسکری گروپ بھی سرگرم ہیں۔ جن میں ریولوشنری پیپلز فرنٹ (RPF)، منی پور لبریشن فرنٹ آرمی (MLFA)، کنگلی یاول کنبا لوپ (KYKL)، ریولوشنری جوائنٹ کمیٹی (RJC)، Kangleipak ، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ (PULF)، منی پور ناگا پیپلز فرنٹ (MNPF)یونائیٹڈ کوکی لبریشن فرنٹ (UKLF)، کوکی نیشنل فرنٹ (KNF)، کوکی نیشنل آرمی (KNA)، کوکی ڈیفنس فورس (KDF)، کوکی ڈیموکریٹک موومنٹ (KDM)، کوکی نیشنل آرگنائزیشن (KNO)، کوکی سکیورٹی فورس (KSF)، چن کوکی ریولوشنری فرنٹ (CKRF) کوم ریم پیپلز کنونشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بھارت کے موخر تزویراتی تحقیقی ادارہ انسٹیٹوٹ آف ڈیفنس اینالسز میں محقق پشپتا داس کے مطابق جہاں ہائی کورٹ کا فیصلہ فوری تشدد کا محرک بنا، وہیں میتی اکثریت والی ریاستی حکومت کے خلاف کافی عرصے سے کوکی برادری میں غصہ بھڑک رہا تھا۔ منی پور حکومت نے پچھلے کچھ مہینوں میں کچھ ایسے اقدامات اور فیصلے کیے ہیں جس سے کوکی برادری میں امتیازی سلوک اور عدم تحفظ کا احساس پیدا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ میانمار سے بہت سے غیر قانونی تارکین وطن ریاست میں آباد ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی حکومت نے مبینہ طور پر میانمار کے ساتھ فری رجیم موومنٹ (FMR) کو معطل کر کے میانمار سے 410 'غیر قانونی تارکین وطن' کو حراست میں لے لیا۔ مزید برآں، بیرن سنگھ حکومت نے ریزرو جنگلات، محفوظ علاقوں میں رہنے والے مکینوں کو بے دخل کرنے کیلئے نوٹس بھی بھیجے۔ اس دوران دیہاتیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کوکی قبیلہ نے تجاوزات کے نام پر اس مہم کو اپنی برادری کے خلاف کارروائی سے تعبیر کیا ۔کوکی قبیلہ میانمار میں رہنے والے چن قبیلہ کا ہم عصر ہے۔ دونوںمیں برادری اور رشتہ داریاں قائم ہیں اور صدیوں سے وہ سرحدیں عبور کرکے ایک دوسرے کے علاقو ں میں آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، منی پور حکومت نے 2017 میں ریاست میں 'منشیات کے خلاف مہم بھی شروع کی تھی۔ اکھرول، سیناپتی، کانگپوکپی، کامجونگ، چورا چند پور اور ٹینگنوپال اضلاع کی پہاڑیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ پوست کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی کاشت کی جا رہی تھی۔ پوست کی ناجائز کاشت کو زبردستی تلف کرنے اور دیہاتیوں کی گرفتاریوں کو، تاہم، کوکی برادری اپنی روزی روٹی سے محروم کر نے کی سازش کی طور پر دیکھ رہی تھی۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کوکی مظاہرین کو عسکریت پسند تنظیموں خصوصاً کوکی نیشنل آرمی (KNA) اور زومی ریوولیوشنری آرمی (ZRA) سے مدد مل رہی ہے۔ درحقیقت،حکومت اور عسکریت پسند گروپوں کے درمیان 2016 سے امن مذاکرات چل رہے تھے اور ایک سیز فائر کے معاہدہ پر عمل ہو رہا تھا۔ 10مارچ 2023 کو بیرن سنگھ حکومت نے کوکی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ سہ فریقی سسپنشن آف آپریشنزیعنی سیز فائر سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری نے نہ صرف کوکی برادری کو تذبذب میں مبتلا کیا بلکہ کوکی عسکریت پسندی کے مسئلے کے حل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ۔ اس سیز فائر اور مذاکرات نے کوکی کمیونٹی میں امیدیں پیدا کی تھیں کہ ان کے مطالبات کے بعد ایک علیحدہ کوکی لینڈ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا۔ درحقیقت اس امید نے انہیں 2022 کے منی پور انتخابات کے دوران بی جے پی کی حمایت کرنے پر اکسایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کوکی عسکری گروپوں نے پہاڑی علاقوں میں بی جے پی کو ووٹ دینے کیلئے اپیل کی تھی۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ مرکزی حکومت ایک کوکی لینڈ علاقائی کونسل قبول کرنے پرتیار ہے۔ تاہم ریاستی حکومت جس میں میتی کا غلبہ ہے، کوکی لینڈ علاقائی کونسل کے قیام کیخلاف ہے کیونکہ وہ اسے ایک علیحدہ کوکی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ منی پور میں ویسے تو امن کی صورتحال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے مگر وزیر اعظم نریند ر مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے مکر و فریب کا سہار ا لیکر ایک ایسا امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جو بس اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ حقیقی امن کے لئے کوششیں کرنے کے بجائے، مختلف گروپوں کو الجھا کر وقتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے کام کئے گئے۔ یہ صرف شمال مشرق کا حال نہیں، بلکہ اس حکومت کا رویہ دیگر خطوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی حل نکالا جاتا، ان کو شمال مشرق سے کانگریس کو بے دخل کرکے حکومتیں بنانے کی جلدی تھی۔ یہ گڑھا اب بیچ چوراہے پر ٹوٹ چکا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ منی پور کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرکے مودی حکومت سیاسی معاملات کا تصفیہ کرنے کی طرف قدم بڑھائے۔