بلوچستان میں پچھلے انتخابات کے دوران بھی ووٹ کو کافی عزت ملی تھی ۔کیونکہ ہم نے دیکھ لیا کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے حلفیہ طور پر اپنے ووٹرز کو یقین دلاتے ہوئے کہاتھا کہ’’وہ بحیثیت رکن صوبائی اسمبلی اپنے فرائض اور کارہائے منصبی ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ انجام دیں گے ، وہ اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری فرائض اور فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے اور وہ ہر حال میں تمام لوگوں سے بلاخوف ورعایت اور بلا رغبت وعناد قانون کے مطابق انصاف کا معاملہ کرکے دم لینگے ‘‘ وغیرہ ۔ہمیںبعدمیں یہ علم بھی ہوا کہ بلوچستانی عوام کے ان نمائندوں کے پھر دو طائفے بنے۔معمول کے مطابق ایک طائفے کو پانچ سال تک حکومتی امور نمٹانے کی ذمہ داری سونپی گئی جوطائفہ مقتدرہ کہلایا گیا جبکہ دوسرا طائفہ اختلاف والوں کاتھاجسے مقتدر طبقے کی چھوٹی موٹی خامیوں کی نشاندہی کرنے اور اسے راہ راست دکھانے کاٹاسک ملا۔ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان طبقے میں اکثر نمائندوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھاجبکہ دوسرے نمبر پر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی جیسی قوم پرست جماعتوںکے نمائندے اس مخلوط کابینہ میںشامل تھے۔ پھریہ خبر بھی آئی کہ ان نمائندوں کو حسب معمول وہ سبھی عہدے الاٹ ہوئے جو ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی کے بنیادی حوائج کو پورا کرتاہے۔ کسی کو طب کا شعبہ سنبھالنے کا قلم دان دیاگیاتو کسی کو ناخواندگی میں کمی لانے کا ٹاسک ملا۔کسی کے حصے میں امن وامان قائم کرنے کی ذمہ داری آئی تو کسی کو بلدیات اور ٹریفک کے نظام کی درستگی کی۔ وزارت اعلیٰ کا عہدہ پہلے ایک دھیمے مزاج کے مالک ڈاکٹر کو ملا توڈھائی سال بعدیہی عہدہ ایک نواب صاحب کو ملا جنہوں نے دل پر پتھر رکھ کر ڈھائی سال تک انتظار کیاتھا۔مختصریہ کہ اس مخلوط حکومت کے پانچ سالہ عرصے میں وہ سبھی کام تقریباً ہوگئے جس کے بارے میں بلوچستان کے سادہ لوح بلوچوں اور پشتونوں کے ہاں ناممکنات میں سے تھے۔ مثال کے طور پر مذکورہ حکومت نے بے روزگاری کے بے قابو جن کو اس حدتک قابو کرلیا کہ اب اگلی حکومت کو اسے صرف بوتل میں معمولی ٹھونسنا اور پھر ڈھکن لگانا باقی ہے۔ امن وعامہ کی خراب صورتحال میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آئی ۔خواندگی کی شرح میں بھی کافی بہتری آئی ہے کیونکہ تعلیم کے اوپر کام کرنے والے ’’الف اعلان ‘‘ جیسے نجی ادارے کی رپورٹس اور مباحثے قارئین ملاحظہ کرسکتے ہیں۔صحت کا شعبہ بھی قدیم سے جدید خطوط پر استوار ہواجس کی واضح مثال ژوب کا سول ہسپتال ہے ۔اس پورے عرصے میںنیب والوں کا ایک سیکرٹری صاحب کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنا ، ان کے گھر کی الماریوں، بیڈ روم اورپانی کی ٹینکیوں سے ستر کروڑ رقم کی ریکوری اور بعد میں کائونٹنگ مشین کے ذریعے اس رقم کی گنتی کرانا ، اگرچہ اس شفاف دور حکومت میں یہ ایک ناخوشگوار واقعہ ضرور تھا، لیکن دراصل یہ بھی اس امین حکومت کو بدنام کرنے کی ایک گھناونی سازش تھی ۔ اس حکومت کے بعض وزراء نے غضب کا کمال تویہ کردیاکہ وفاقی حکومت کو کروڑوں روپے واپس بھیج کر صوبے کا نام تاریخ میں روشن کردیا۔حالانکہ ماضی میں بننے والی حکومتوں کے وزراء صاحبان آخر تک وفاقی فنڈز اور معاونت کے بھوکے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پانچ سال کا طویل عرصہ توبیت گیا لیکن اس ایوان میں بدمزگی اور تلخی نام کی کوئی چیز دیکھنے اور سننے کو نہیں ملی۔اس پورے عرصے میں نہ تو حزب مخالف نے کسی کی دل آزاری کی اور نہ ہی اقتدار والوںنے اپنے مخالفین کو گالیاں دیں۔ گالیاں تو کُجا، ڈھکی گالی تک نہیں دی۔ ہاں ایوان کے الوداعی ایام میں بے شک کچھ نوخیزوں ایم پی ایز صاحبان کے درمیان تُو تُواور مَیں مَیں ضرور ہوئی ،لیکن نوبت پھر بھی یہاں تک نہیں پہنچی کہ ایوان کو مچھلی بازار سے تشبیہہ دی جائے۔بے صبرے قارئین پھر بھی اگروہ چاہیں تو انٹرنیٹ پر اُسی دن کی ویڈیو تلاش کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بلوچستان کی وہی اسمبلی اب نہیں رہی جو پانچ سال پہلے تشکیل ہوئی تھی۔یہ اسمبلی اب اللہ کو پیاری ہوگئی ہے۔یوںسجھیے کہ حالیہ دنوں میں اس وسیع وعریض ایوان کا استبراء رحم مکمل ہوگیا اور اب نئے ایوان سجنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔انتخابات کی آمد آمد ہے اورچناو کا دن 40 سے 45 دن کے فاصلے پر رہ گیاہے۔ اہل سیاست سے باخبر لوگوں کی پیش گوئی تویہ ہے کہ اگلی حکومت بھی خداترس لوگوں کی ہوگی، بلکہ ان لوگوں کے آنے کی قوی امید ہے جو یہاںپر پہلے بھی دیکھے اور آزمائے گئے ہیں ۔ جن کے سفید عمامے اور پُرنور چہرے انسانی نظروںکو خیرہ کررہے ہیں ۔ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضوکریں اگرچہ حال ہی میں رخصت ہونے والی حکومت میں کچھ لوگ ایسے ضرور تھے جن کی دیانت کچھ نہ کچھ مشتبہ تھی، لیکن اب کی بارتو ایسا قطعاً نہیں ہوگا۔کیونکہ آنے والے متوقع لوگوں کوبیت المال میں غُلول کے بارے میں مبینہ وعیدوں کا بھی علم ہے اور اقرباء پروری ، خیانت اور رشوت ستانی کے برے نتائج سے بھی وہ باخبر ہیں۔ معاف کیجیے ، میں فی الوقت آپ سب لوگوں سے اجازت لیناچاہتاہوں۔ جہاں تک مجھے اپنے صوبے کے ان قوم دوست، وطن دوست اور اسلام پرور لوگوں کی خدمات کے بارے میں علم تھا ، اس سے آپ لوگوں کو بھی جانکاری دی۔ البتہ جو میرے علم میں نہیں ، اس کے لیے آپ سردست انتظار کریں، کیونکہ آپ سب کے سامنے خدمت خلق کا ایک نیا دور عنقریب شروع ہونیوالا ہے۔