چند ہفتے قبل بنگلہ دیش نے دنیا کو اسوقت حیران کردیا جب اسکے مرکزی بنک نے سری لنکا کے لیے بیس کروڑ ڈالر کا قرض منظور کیا تاکہ سری لنکا زرمبادلہ کے بحران پر قابو پاسکے۔حالانکہ سری لنکا کی فی کس آمدن بنگلہ دیش سے تقریباً دوگنی ہے اور بنگلہ دیش ایک کم آمدن والا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اسکی مسلسل معاشی ترقی اور بڑھتی ہوئی برآمدات کے نتیجہ میں اسکے زرمبادلہ کے ذخائر بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ جبکہ سری لنکا کی حالت کسی قدر پاکستان سے مِلتی جُلتی ہے۔اس کی حکومت نے بھاری بیرونی قرضے لیکر اپنے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کرلیا ۔ گو اس نے گزشتہ برسوں میں تیز رفتار ترقی تو کی لیکن اسکے بیرونی قرضے اتنے زیادہ ہوگئے کہ اُنکی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کی کمی ہوگئی ۔کچھ یہ بھی ہے کہ سری لنکا نے درآمدات کا پھاٹک اسی طرح کھول دیا تھا جیسا وزیراعظم نوازشریف کے زمانے میں پاکستان نے کیاتھا جس کے نتیجہ میں تین سال پہلے پاکستان بیرونی ادائیگیوں کے قابل نہیںرہا تھا ۔ خیر‘ سری لنکا کو زرمبادلہ کے بحران سے باہر نکالنے میںمدد دینے والا ملک وہی بنگلہ دیش ہے جس کے بارے میں اسکی پیدائش کے وقت امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہاتھا کہ یہ ملک خیرات مانگنے والے کی تھالی ہے۔کبھی کے دن بڑے‘ کبھی کی راتیں۔ بنگلہ دیش کی معیشت کی مضبوطی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے نمائشی ترقی کے لیے لمبے چوڑے بیرونی قرضے نہیں لیے ۔ اسکے برعکس پاکستان نے موٹرویز‘ میٹرو ٹرانسپورٹ اور بڑے بڑے ائیرپورٹ ٹرمینل بنانے کے لیے دل کھول کر قرضے لیے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بیرونی قرضے اسکی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے محض اٹھارہ فیصد کے برابر ہیں۔ اسکی داخلی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن بیرونی قرضوں میں بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ بنگلہ دیش کی حکومت قرضوں کے بوجھ تلے نہیں دبی ہوئی اسلیے اسکے نجی شعبہ کے پاس بینکوں سے سرمایہ حاصل کرنے کے زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت کو جو سالانہ ٹیکس آمدن ہوتی ہے اسکا صرف انیس فیصد حصہ قرضوںکی واپسی میںخرچ ہوتا ہے۔ اسکے برعکس نئے مالی سال میں پاکستان حکومت کی مجموعی ٹیکس آمدن کانصف تو قرضوں اور اُنکے سود کی ادائیگی میںخرچ ہوجائے گا۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر پینتالیس ارب ڈالر ہیں جبکہ ہمارے تئیس ارب ڈالر۔ اسکی مجموعی داخلی پیدوار(جی ڈی پی) پاکستان کی نسبت ساٹھ ارب ڈالر زیادہ ہے۔ حالانکہ جب بنگلہ دیش بنا تھا تو اسکی معیشت کا حجم پاکستان سے بہت کم تھا۔ کوئی ایسا شعبۂ زندگی نہیں جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو پیچھے نہ چھوڑا ہو۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت اسکی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔لیکن اسکے حکمرانوں نے آبادی پر قابو پانے کیلیے کامیاب حکمت عملی اختیار کی جسکے نتیجہ میں آج بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے تقریباًچھ کروڑ کم ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے اسکی سالانہ معاشی ترقی کی شرح سات سے آٹھ فیصد ہے ۔ ہماری دو سے پانچ فیصد رہتی ہے۔ ایک سال پہلے تو منفی میں چلی گئی تھی۔ اسکی فی کس مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) پاکستان کی فی کس پیداوارکی نسبت ساٹھ ستّر فیصد زیادہ ہوچکی ہے۔بے روزگاری پاکستان کی نسبت کم ہے۔ صحت اور تعلیم کے اشاریے پاکستان کی نسبت بہتر ہیں۔غربت موجود ہے لیکن اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ تیس سال پہلے اسکی تقریباً نصف آبادی غریب تھی۔ اب صرف بیس فیصد آبادی غربت کی سطح پر ہے۔ بنگلہ دیش کے انسانی ترقی کے تمام اشاریے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے اوسط اشاریوں سے بہتر ہیں۔ یہ وہی سابقہ مشرقی پاکستان ہے جو پچاس سال پہلے ہم سے الگ ہوکر الگ ملک بن گیا تھا۔ پچاس سال پہلے ہمارے ملک کے بعض لوگ بنگالیوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ انہیں کم تر سمجھتے تھے۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ وہ ہم سے بہترکارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ایوب خان کے دور حکومت تک پاکستان جنوبی کوریا اور سنگاپور سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا۔لیکن اسکے بعد قوم سیاسی مداریوں اورمہم جُو آمروں کے پیچھے لگی تو آج ہمارا مقابلہ افریقہ کے پسماندہ ملکوں سے کیا جاتا ہے جو ہر وقت دنیا کے سامنے قرض مانگنے کے لیے دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ناقص پالیسیوں کے باعث ہماری حالت تو بعض افریقی ممالک سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔مثلاًافریقی ملک گھانا کا فی کس جی ڈی پی 1900ڈالر ہے۔ ہمارا 1550ڈالر ہے۔ خارجہ پالیسی میں بھی بنگلہ دیش نے کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ کسی ایک ملک کی گود میں بیٹھنے کی بجائے اُس نے تمام بڑے ملکوں سے اچھے تعلقات قائم کیے ہیں۔ بنگلہ دیش کے امریکہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ انڈیا سے قریبی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں انڈیا نے اسکو دفاعی سامان خریدنے کیلیے پچاس کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔ جب انڈیا میںکورونا وبا کی شدت بڑھی اور دواؤں کی قلت ہوئی تو بنگلہ دیش نے اسے کورونا کے علاج کی دوائیںعطیہ کیں۔ چین کے بھی بنگلہ دیش سے طویل مدتی‘ خوشگوار تعلقات ہیں۔ چین نے چٹاگانگ کی بندرگاہ کو ترقی دینے کیلیے اس میں خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے تحت بنگلہ دیش میں سی پیک کی طرز پر اربوں ڈالر کے منصوبوں میںسرمایہ کاری کررہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کواڈ نامی اتحاد میں شامل ہوجائے جو امریکہ کی سربراہی میں چین کو محدود کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ لیکن چین نے حال ہی میں بنگلہ دیش کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے۔ چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکہ کوشش کررہا ہے کہ چین اور بنگلہ دیش کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ ابھی تک بنگلہ دیش نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ تاہم امکان یہی ہے کہ وہ اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھے گا اور کسی ایک ملک کا یکطرفہ اتحادی نہیں بنے گا۔ اسکے مفادات چین اور امریکہ دونوں ملکوں سے وابستہ ہیں۔ وہ ان میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرے گا۔