بونا پارٹ ازم کسی بھی سول یا ملٹری ڈکٹیٹر کے آمرانہ طرز حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں اس نے اپنے شخصی اقدامات کے تحفظ کے لیے مصنوعی اور بے اختیار جمہوری ادارے قائم کئے ہوتے ہیں پاکستان میں شخصی سول یا ملٹری ڈکٹیٹرشپ قائم کرنا اب تھوڑا مشکل ہو گیا ہے تو اس کی جگہ اولیگارگی نے لے لی ہے جس میں بونا پارٹ کے تابع چند طاقتور عناصر کا گروہ مل کر ہائبرڈ رجیم قائم کر لیتا ہے اور اس ہائبرڈ رجیم کا واحد مقصد سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اپنے ذاتی، گروہی، طبقاتی اور اداراتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے پاکستان میں پی ڈی ایم اور اس کے بعد 12 ماہ کی غیر آئینی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی حکومتیں اور مرکز میں 7 ماہ کی غیر آئینی حکومت اور حالیہ متنازع انتخابات میں بننے والی نئی حکومتیں بونا پارٹ ازم کا ہی تسلسل ہو نگی ۔مولانا فضل الرحمن جو ہمیشہ اولیگارگی کے طاقتور کھلاڑی رہے ہیں اب پتہ نہیں کیوںکہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت اسمبلی، وزیراعظم، کابینہ اور ارکان پارلیمنٹ کا حکومتی پالیسی سازی میں کوئی کردار نہیں ہو گا اور ان کو جو احکامات دیئے جائیں گے وہ اس پر ہو بہو عملدرآمد کرنے کے پابند ہونگے ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ عوام کی قسمت کے فیصلے ان کے مینڈیٹ سے نہیں ہوتے ۔ سٹیس کو سے ثمرات سمیٹنے والے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر بونا پارٹ ازم کے طرز حکومت کے تابع ایلیٹ ازم کا ایک ایسا اداراتی سیٹ اپ قائم کر لیتے ہیں جس میں مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے پر باہمی انحصار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ایسے ادوار میں عدلیہ غیر فعال یا کمزور ہو تی ہے یا نظریہ ضرورت کے تحت بونا پارٹ کی خوشنودی کے لیے انکے ہر حکومتی فیصلے کو آئینی تحفظ دیتی ہے ۔جسٹس منیر سے لیکر ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے اس کی شاہکار مثالیں ہیں اگر اعلی عدلیہ جوڈیشل ایکٹو ازم کا مظاہرہ کرے تو بونا پارٹ حکومت ان عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد ہی نہیں کرتی ہے۔ 14 جنوری 2023 کو جب پنجاب اور 18 جنوری کو خیبر پختون خواہ کی اسمبلی تحلیل کی گئی آرٹیکل 224 کے تحت دونوں صوبوں میں 90 روز میں انتخابات کا انعقاد لازمی تھا سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا مگر پی ڈی ایم کی حکومت اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کی پی ڈی ایم کے وزرائ￿ نے سپریم کورٹ کے معزز ججز پر کھلے عام رکیک حملے کیے اور سپریم کورٹ کے گیٹ پر جھتے جمع کر کے عمر عطا بندیال کے خلاف نعرہ بازی کی گئی مگر عمر عطا بندیال کی عظمت اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ وہ ضبط کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ 12 اگست 2023 کو قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی مگر سپریم کورٹ اور صدر مملکت کی کوششوں کے باوجود 90 روز میں الیکشن نہ ہو ئے۔ آج بلاول زرداری کہہ رہے ہیں کہ اگر صدر عارف علوی اسمبلی کا اجلاس نہ بلاتے تو ان کے خلاف آئین کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوتی مگر بلاول صاحب کو وہ آئینی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتی ہیں جو پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن نے نوے روز میں الیکشن نہ کرا کے کیں ۔نان الییکٹڈ اور غیر آئینی وزیر اعظم ایک منتخب صدر کو دھمکی آمیز سمریز بھیجتا ہے کیا طرفہ تماشا ہے؟ جب آصف علی زرداری زرداری صدر تھے تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو کہنا پڑا کہ کہ اگر حکومت نے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرنا ہے تو بہتر ہے کہ عدالتیں بند کر دیں۔ نگرانوں کے دور حکومت میں بھی عدالتیں سیاسی کارکنوں کو ایک مقدمے میں رہا کرتیں تو ان کو کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ۔آج بھی ہزاروں سیاسی کارکن خواتین اور مرد بے گناہ مقدمات میں گرفتار یا روپوش ہیں دو نامور صحافیوں کو قید و بند کی نظر کر دیا گیا پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکمرانوں کی آمرانہ ذہنیت نے ہمیشہ کبھی مکمل ڈکٹیٹر شپ یا نیم جمہوریت کے نام پر چند افراد کی حاکمیت کو فروغ دیا ہے۔ غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر تے وقت اور ایوب خان نے سکندر مرزا کو اقتدار سے بے دخل کرتے وقت کیا عوام سے پوچھا ایوب خان نے مکمل بند وق کی حکومت کو بنیادی جمہوریت کے لبادے میں بونا پارٹ حکومت قائم کی ۔1962 کے صدارتی آئین کے تحت تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے اسی طرح یحییٰ، ضیاء اور مشرف پاکستان کے اقتدار کے بلاشرکت غیرے مالک بن گئے ۔یحییٰ خان کے بونا پارٹ ازم سے ملک دولخت ہوا تو ضیاء اور مشرف نے پاکستان کو امریکی مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا مگر ہمارے حکمرانوں نے افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنانے میں عوام کی ناپسیندگی کو پرکاہ اہمیت نہ دی اور اگر قوم پرستی کے خبط میں مبتلا عمران خان نے سائفر کی بات کی تو بدلے میں وہ آج سزا یافتہ ہے ۔ہم اپنے آقاؤں کے خلاف کیسے بات کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ بھٹو، فیصل، قذافی اور صدام کو قوم پرستی کی خاطر جان سے ہاتھ دھو نے پڑے، وہ الگ بات ہے جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں پاکستان میں آئین شکنی پر آج تک کسی طاقت ور کو سزا نہیں دی گئی ۔مشرف کے خلاف بھی جسٹس وقار کا فیصلہ اس لیے سپریم کورٹ میں بحال ہو گیا کہ مشرف کی وفات کے بعد اس کے لواحقین نے کیس کی پیروی نہیں کی، وگرنہ زبانی سزا بھی نہ ہو تی۔ اگر دوسرا فریق پیروی کرتا آج ایک دفعہ پھر شریف خاندان کی بونا پارٹ حکومت پنجاب میں بن چکی ہے اور مرکز میں بن رہی ہے۔ اس ملک میں 33 سال مارشل لائ￿ رہا اور اتنے ہی برس شریفوں نے حکومت کی مگر پاکستان کی تمام معاشی مشکلات کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے جس نے ساڑھے تین سال کرونا میں مسلسل دباؤ میں حکومت کی اب دوبارہ شہباز شریف وزیر اعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہونگے اور بڑے میاں صاحب کی رہنمائی میں دوبارہ اشیائے ضروریات کی قیمتوں کو 2017 کی سطح پر لیں جائیں گے اور ڈالر تو اسحٰق ڈار صاحب کی دہشت سے مرعوب ہو کر 100 روپے پر چلا جائے گا ہابریڈ پلس حکومت میں جعلی مینڈیٹ سے حکومت بنانے والوں کو نہیں پتہ کہ عوام کے دلوں میں کس قدر نفرت پل رہی ہے وہ اپنے معاشی، شخصی اور سیاسی استحصال پر شدید غم و غصہ میں ہیں اب بوئے گل، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ