خبر ہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ " ملک دیوالیہ ہونے سے ختم نہیں ہوتے۔" یہ ہم جیسوں کی مساعی جمیلہ سے ختم ہوتا ہے۔اگر دیوالیہ ہونے سے ملک نے ختم ہوتا تو یہ بیچارہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔پچھلے پندرہ سالوں سے ہم ہی تو سندھ میں حکومت کر رہے ہیں وہاں سب کو علم ہے کہ عوام ہی دیوالیہ ہوئی ہے۔عوام کا دیوالیہ ہونا اور بات ہے اور ملک کا دیوالیہ ہونا الگ بات ہے۔ان دونوں کو آپس میں رلانے ملانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ویسے بھی چاند چڑھتا ہے سب کو نظر آتا ہے۔ملک دیوالیہ ہو گا تو سب کو نظر آ جائے گا۔بیکار اندازے لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔سب کو معلوم ہے کہ جب اکہتر میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا تھا تب اس کی مالی حالت بہت اچھی تھی۔ملک دیوالیہ نہ ہونے کے باوجود بھی دو ٹکڑے ہو گیا۔ شاعر نے کہا تھا : پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی جو بات کی خداکی قسم لاجواب کی یہ درست ہے کہ عوام دیوالیہ ہو گئی ہے اور دو نوالوں کی ترس گئی ہے مگر ملک کے حالات ایسے نہیں۔ثانیا ً کچھ آئی ایم ایف نے بھی فضول شور مچایا ہوا ہے۔سنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کا ایک بیان وائرل ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ملک کو دیوالیہ پن سے بچانا ہے تو امیروں پر ٹیکس لگانا ہو گا۔ اس سربراہ کو بھلا کیا علم کہ ایسے اقدامات سے ہی ملک تباہ ہوتے ہیں۔ہم نے ملک کی سربراہی بھی کی ہے اور سربراہی سے الگ ہونے کے باوجود فضل ربی کی کمی نہیں رہی۔لہذا قوم کو پریشان ہونے کی ضرور ضرورت ہے البتہ ملک کو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اپنے اخبار کے مطابق "سابق صدر آصف علی زرداری نے الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے پنجاب کا دورہ شروع کر دیا " کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پی پی پی کو پنجاب میں جو ایک دو سیٹیں ملنے کا امکان باقی ہے وہ بھی ختم ہو اور یہ روز روز پنجاب میں ان کی مقبولیت اور غیرمقبولیت کی بحث کا ٹنٹا فنا ہو۔ خبر ہے پہلے وہ " نجی طیارہ پر ملتان پہنچے وہاں سے انہوں نے وہاڑی جانا تھا ملتان سے وہاڑی تک وہ حکومت سندھ کے ہیلی کاپٹر پر گئے۔" نجی جہاز کا مزا بھی بہت تھا مگر جو سندھ حکومت کے ہیلی کاپٹر کے جھوٹے تھے وہ تو گویا وڑائچ طیارہ کے تھے۔اس موقع پر یوسف رضا گیلانی نے دوسرے لوگوں کے ساتھ سابق صدر کا استقبال کیا۔خود یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان نے بھی اپنے زمانے میں اس وڑائچ طیارے کے خوب مزے اڑائے تھے۔ سابق صدر نے مزید کہا کہ " پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے نہیں، تیر کے نشان پر لڑے گی"۔ اگرچہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے لڑنے کا بھی نتیجہ وہی نکلنا ہے جو تیر کے نشان پر لڑ کر نکلنا ہے۔ جب ہارنا ہی ہے تو فکر کیسی؟۔ ویسے بھی الیکشن لڑنا ایک سائنس ہے جو ہم نے نہ صرف خود بلکہ اپنی سیکنڈ کلاس لیڈرشپ کو بھی ازبر کرا دی ہے۔کراچی کے بلدیاتی الیکشن اس کی واضح اور خوبصورت مثال ہیں۔عزیزی شرجیل میمن، سعید غنی اور ناصر شاہ اب اس کام میں مکمل مہارت حاصل کر چکے ہیں۔حافظ نعیم الرحمان سے اب بھی کہتا ہوں کہ کراچی کی مئیر شپ بھول جائیں کیونکہ ابھی تو الیکشن کمشن اور ضروری کاموں میں مصروف ہے۔لہذا چھوٹے بھائی لالہ سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمان سمجھ لیں کہ: رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ " جام پور میں عمران خاں اپنی مقبولیت کی وجہ سے نہیں جیتے" بلکہ ہماری غیر مقبولیت کی وجہ سے سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔نہ ہم غیر مقبول ہوتے نہ وہ سیٹ جیت سکتے۔اور اس پر ہمیں کچھ رنج بھی نہیں ہے کہ ہم مقبول ہیں کہ غیر مقبول۔اپنا توا گرم ہے جس کا چولہا ٹھنڈا ہے وہ جانے اور مقبولیت جانے۔ انہوں نے کہا " وہ ہمیں دلدل میں فنسا (پھنسا )گیا ہے " اگرچہ اصل میں تو اس ملک کو ہم نے فنسایا ہے اس کی چھوٹی سی مثال سے بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔ہم نے اپنی حکومت میں ایران سے گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا تھا۔وہ ہمارے دوسرے وعدوں کی طرح وفا نہیں ہوا۔اب یقین ہے کہ پیاری قوم کو اٹھارہ ارب ڈالر ہرجانہ لگنے والا ہے۔ایک ارب ڈالر مانگتے مانگتے اٹھارہ ارب ڈالر دینے پڑ گئے تو لگ پتہ جائے گا۔اصل میں تو اس فنسانا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا " غریب کی آواز اللہ سنے گا " اب سب کو تو معلوم ہے کہ پی پی پی نے تو اس کی بات نہ سننے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اب آپ سے کیا پردہ پی پی پی نے اپنی رضاعی بہن ن لیگ کو بھی عرصہ ہوا یہ گر سکھا دیا تھا اب رہ گئے ڈیرے والے بھائی ان کو تو خود آج کل اللہ نہیں سن رہا۔دوسری طرف عزیزی مفکر رضا ربانی کے چشم کشا خط کے پیچھے ہمارے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔اس خط میں جو نکات سمجھا دیے ہیں اس کے نتیجے میں اگلی بار حکومت کا بار گراں اٹھانے کی ہمت ہمارے سوا اور کون کرے گا۔ ایک گیلپ سروے کا بھی بڑا رولا پڑا ہوا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نام نہاد تازہ گیلپ سروے نے تو لنکا ہی ڈھا دی اور مجھے سب سے زیادہ نیگیٹو ریٹنگ دی گئی۔اس طرح کے سروے کے بعد کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بدل جائیں گے وہ کیا مرزا نوشہ کہہ گیا ہے: گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی یہ جنون ِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا