دو بارشیں ہوئیں۔ ایک نے میاں شہباز شریف کا پیرس(لاہور) ڈبو دیا جبکہ دوسری نے میاں نواز شریف کی سول بالا دستی کی خواہش کا پارس گہنا دیا۔ایک نواز برادران ہی پرکیاموقوف ، عرصہ ہوا ہم مسلمانوں نے دعاؤں اور خواہشوں پر اکتفا کرنا شعار کر رکھاہے۔عرصہ ہو ا ہم نے یہ سوچنا چھوڑ دیاکہ نیلے آسمان تلے تنی خواہشوں کی ہر وہ رنگین چھتری کہ جسے قوتِ عمل کا سہار ا میسر نہ ہو،یہ کاغذی کشتی ہی ہوتی ہے ، جو کبھی دریا کے پار نہیں اتر سکتی ؎ کاغذ کے پھول سر پر سجا کے چلی حیات نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا سوائے احمقوں اور فریب خورہ لوگوں کے سبھی جانتے ہیں کہ یہ زندگی زمیں کی زندگی ہے ، جنت یہ نہیں۔ جنت اسے بنانا پڑتاہے۔ جس کی ایک قیمت ہے ۔ جتنا بڑااور شیریں مقصد ، اتنی ہی بڑی اور کڑوی قیمت ۔ زندگی کے ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے اور اس کی دشوار یاں سہل کرنے کی بھی ایک قیمت ہے۔ گھوڑا آدمی کی سواری کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ سواری کی مہارت مگر سیکھنا پڑتی ہے۔حج فرض ہے ہر شخص پر مگر نہیں۔ اسی پر جس میں اس کی استطاعت ہو۔ اکیلی مالداری بھی حج کے لیے استطاعت نہیں ہوتی۔آدمی کوہمیشہ نعرے اچھے لگتے ہیں۔ تقریر بھی بڑی خوبصورت ہوتی ہے۔تکا بھی کبھی لگ جاتاہے۔ قیمت وصولے بغیر زندگی مگر کبھی تکا لگانے والے کو بھی نہیں چھوڑتی۔ اس صورت میں قیمت بعد میں وصول کی جاتی ہے۔ اس کریڈٹ کارڈ کی طرح، جس کے ذریعے خریداری پہلے کر لی جاتی ہے اور قیمت بعد میں اد اکی جاتی ہے۔ ایسی صورت میںوصولی اکثر سود سمیت ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے حمایتی بھی ایک نشہ طاری کر دیتے ہیں۔ اسی نشے نے مشرف کو کمر درد تک پہنچا دیا تھا۔ سنگدل اور بے لحاظ زندگی مگرتابناک عمل مانگتی ہے ،کامیابی ایک بڑی قیمت مانگتی ہے۔ ایک ہیرا اگرچہ ہیرا ہی ہوتاہے۔ خواہ وہ کان میں دباپڑا ہو یا جوہری کے کارخانے تک آپہنچا ہو، پہنے جانے اور سراہے جانے کے قابل مگر وہ تب بنتاہے ، جب ا س کے تن اور جگر پر تیز دھار آلے کی قیامتیں گزر جائیں ؎ نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا اس میں کچھ شک نہیں کہ سول بالا دستی ہی جدید دور میں چل سکنے والا سکہ ہے، سول بالا دستی مگر جمشیددستی کا کوئی ان پڑھ بھائی نہیں، معصوم ووٹر کو جو ناٹک یا ڈھونگ سے رام کر لے۔سول بالادستی ایسا کوئی چھو منتر بھی نہیں کہ اس کا ورد کرنے سے آدمی پر کامیابی اور فتحمندی کی جادو نگریاں طلوع ہونے لگیں۔ کچھ ہوتے ہیں، سارے لوگ مگر بے وقوف نہیں ہوتے۔اور یہ بھی طے کہ لشکر کے سارے آدمی جب تک ساتھ نہ دیں، کوئی سورما جنگ نہیںجیت سکتا۔دینے والے آئین کے حوالے دیتے ہیں۔اسی آئین کو کاغذ کا پرزہ ایک آمر نے کہہ دیا تھا۔ غلط کہاتھاکہ آئین ہی انسانوں کے امن سے زندہ رہنے اوروقار سے آگے بڑھنے کے ضامن ہوتے ہیں۔ ایک آئین مگر تب کاغذ کا پرزہ ہی ہوتاہے، جب اسے نافذ کرنے کی آپ میں قوت موجود نہ ہو۔ مسلمانوں کے لیے قرآن سے بڑامقدس اور کامرانی کا ضامن آئین اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اس پربھی عمل نہ کرکے مسلمان مگر آج غالب نہیں مغلوب ہیں ، حاکم نہیں محکوم ہیں۔ ’’خدا حاکم کے ذریعے وہ کام بھی لے لیتا ہے، قرآن کے ذریعے جو نہیں لیتا۔‘‘ سرکار کا یہ ارشاد قوت اور اختیار کی حیثیت واضح فرماتاہے۔ قوت مگر خواہش سے نہیں عمل سے پھوٹتی ہے۔ فرض کریں، گھڑ دوڑ میں آپ ایک لاغر اور بے جان گھوڑا ، اسٹیبلشمنٹ کے توانا اور مستعد گھوڑے کے مقابلے میںاس تمنا کے آسرے پر چھوڑ دیں کہ سول بالا دستی نام ہونے کی وجہ سے آپ کا لاغر گھوڑا جیت جائے گا، یا اسے جیت جانا چاہئے تو ظاہرہے آپ کا نام نواز شریف ہی رکھا جا سکتا ہے۔ خواہش اور خواب بڑی اچھی چیزیں ہیں، سفاک زندگی مگر قیمت مانگتی ہے۔سرمے کا نام کافور رکھ دینے سے ، سیاہی سرمے سے کافور نہیں ہو جاتی۔ سر منڈا دینے والا ہر شخص صوفی نہیں ہو جاتا۔ مسجد میں بیٹھے لوگوں کو خلیفہ عمرؓ نے یہ کہہ کرمسجد سے اٹھا دیا کہ جاؤ اور محنت مشقت سے کچھ کماؤ۔خدا آسمان سے تم پر سونا چاندی نہیں برسائے گا۔یہی اٹل حقیقت ہے کہ قول کبھی عمل کا بدل نہیںہوتا ؎ خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں نواز شریف گملے میں اگے سیاستدان ہیں۔پھر کسی دن ان کی انا مجروح ہوئی یا شاید غلطی کا احساس ہوا۔تب تک مگر تعیش کے وہ دلدادہ ہو چکے تھے ؎ وقتِ پیری شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں تین بار جب حکمرانی کا لطف لے لیا۔ تب جا کے ایک عدد بیانیہ تشکیل دینے کی سوجھی۔ یعنی تین چار بچوں کی پیدائش و افزائش کے بعد سوجھاکہ ایک عدد نکاح بھی ہونا چاہئے۔ خیرخواہشات کے کریڈٹ کارڈ سے خریداری وہ خوب کر چکے ۔ ادائیگی کا اب وقت ہے۔ ادائیگی کی مگر اب عادت نہیں رہی۔ پھرسول اداروں کی تشکیل اور جمہوری نظام کے نام پر کچھ کارنامہ بھی نہیںفرمایاکہ جس کے آسرے قربانی دینے جمہوریت کے دریا میں وہ چھلانگ لگا سکیں۔حیرت ہے ، عین اس لمحے جب انھیں میدان میں ہونا چاہئے ، ان فٹ ہوکے وہ میدان کیا ملک ہی سے باہر بیٹھے پرچیاں پڑھ رہے ہیں۔فرمایا ،بیوی کو ہوش آتے ہی واپس آؤں گا۔ میں اس بیان کو یوں پڑھتا ہوں، ہوش آتے ہی پاکستان آؤں گا۔ کوئی انھیں بتائے ،بیوی نیلسن میڈیلا کی بھی تھی ، بیوی ابوالکلام آزاد کی بھی تھی۔بیوی بھٹو کی بھی تھی ۔بیوی جاوید ہاشمی کی بھی تھی۔پانچ ہزار سے زائد جوانوں نے حالیہ دہشت گردی کی جنگ میں جانیں ہار دیں ۔ بیویاں ان کی بھی تھیں عالی جناب! مولانا محمد علی جوہر قید میں تھے اور گھرمیں بیٹی سخت بیمار، جیل سے انھوں نے بیٹی کے لیے نامہ لکھا ؎ تو مجھ سے دور سہی ، وہ تو مگر دور نہیں میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں بالفرض ،عدالت کے کٹہرے کے بجائے، میاں صاحب کو وزارت کا حلف بلا رہا ہوتا۔کیا تب بھی آپ بیوی کے سرہانے بیٹھ رہتے؟حسرت ان لوگوں پر سول بالا دستی کا جنھوں نے میاں صاحب کو سالار چن لیا ؎ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے