برصغیر کے مقدر میں کشمکش ہے، جسے شائستہ اور مہذب کرنا چاہیے۔ یکایک دوستی کا تصور احمقانہ ہے کہ اوّل دشمنی ختم کی جاتی ہے۔اس کے بعد کسی پیش رفت کا امکان جنم لیتاہے۔ ہمارے ہاں بھی احمقوں کی تعداد کم نہیں مگر بھارتی سیاست کے تیور نرالے۔ دلّی حکومت بات چیت میں لگی ہے۔ بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہِ محراب ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی گرہیں کھولنے کے لیے ایک خاموش لیکن بھرپور عمل جاری ہے۔امریکی ایما پر، جسے چین اور دوسرے ممالک کی تائید حاصل ہے۔لگ بھگ دو ہفتے سے کنٹرول لائن پہ آگ اور خون کا کھیل بند ہے۔ کرونا کے ہاتھوں معیشت کی تباہی کے علاوہ امریکہ اور یورپ سے سرمایہ کاری کے امکانات تمام ہونے کے بعد، شتابی سے مودی حکومت نے دو فیصلے کیے۔ اوّل چین کے سامنے سپر اندازی، ثانیاً اسلام آباد کے ساتھ کم از کم عارضی جنگ بندی۔مصیبت آپڑتی ہے تو بنی بنائی پالیسیاں اور طے شدہ پیمانے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ حاجی اسلم نے، جن کی یادوں میں لدھیانہ شہر اس طرح جگمگاتا ہے، جیسے انتظار حسین کے خوابوں میں جوانی کے گلی کوچے، آخری انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام کبھی ایک خط میں انہوں نے لکھاتھا: کشمیر کی وجہ سے دنیا نہیں تو آخرت میں آپ کو سزا بھگتنا ہوگی۔ یہ 1964ء کی بات ہے، جب محمد اسلم اپنے والد احمد دین کے ساتھ لندن میں مقیم تھے۔ کینیاسے وہ لندن پہنچے تھے، جس کے لیے احمد دین نے لدھیانہ سے ہجرت کی تھی۔ زمین اللہ کی ہے اور انسانی تاریخ ہجرتوں سے بھری پڑی ہے۔ کشمیر کے باب میں جو نتیجہ زیرِ نظر کتاب ''لدھیانہ کے مسلمانوں پہ کیا گزری‘‘ میں اخذ کیا گیا، وہ قابلِ فہم ہے۔ بالآخر برطانوی ڈرامہ نگار تک اس سے متفق ہیں کہ وائسرائے کی اہلیہ ان پر اثر انداز ہوئیں۔ دھمکی دی کہ وہ انہیں چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ ماؤنٹ بیٹن آداب نظر انداز کر کے ریڈ کلف کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں آمادہ کیا کہ تحصیل گورداسپور بھارت کو سونپ دیں۔ تب یہ کشمیر کی واحد زمینی راہگزر تھی۔ مورخ کہتے ہیں کہ محترمہ نہرو کا کہا ٹال نہ سکتی تھیں۔ لیاقت علی خان قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے یہ کہا تھا: نہرو کی خط و کتابت ہمارے ہاتھ لگ گئی ہے۔ ہم اسے بے نقاب کر سکتے ہیں۔ بابائے قوم نے سختی سے منع کر دیا۔ہمارے آج کے گرجتے برستے سیاستدانوں کے برعکس،کبھی کسی حال میں وہ کردارکشی پہ آمادہ نہ ہوتے۔ حاجی صاحب فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اپنی شگفتہ بیانی کے لیے معروف۔ سوچتے کم اور بولتے زیادہ ہیں۔۔سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ صدر غلام اسحٰق سے ملنے گئے تو ان کے ساتھ تصویر بنوانے کی فرمائش کی اور یہ فرمایا ''بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘۔ قوّتِ متخیلہ سے مالامال، وہ ایک آرزومند آدمی ہیں۔ حاجی صاحب کو لدھیانہ سے محبت ہے اور تحقیق کاولولہ بھی؛چنانچہ فقط 1947ء میں لدھیانہ کے مسلمانوں کی حالتِ زار ہی رقم نہ کی،شہر کی تاریخ، ممتاز خاندان اور برادریاں بھی اجاگر کر دیں۔ مثال کے طور پر مغلوں کے عہد میں یہ قصبہ اس لیے ترقی نہ کر سکا کہ ان کے حریف اور پیش رو ابراہیم لودھی کے نام پر بسایا گیا... لودھیانوالہ، جوسمٹ کر لدّھیانہ ہوگیا۔ شہر میں ایک بڑا میدان تھا، جہاں ہر سال شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام پر روشنیوں کا تہوار منایا جاتا۔ دو نامور شاعر ساحر لدھیانوی اور حافظ لدھیانوی اسی قریہ کے فرزند تھے۔ ساحر کو شہرت زیادہ ملی۔ بغاوت میں ان کے ہم مسلک اور ہم جماعت،حافظ لدھیانوی کلا م میں ان سے کمتر نہ تھے۔ ان کی نعتوں کے 25مجموعے چھپے۔ ایک سے بڑھ کر ایک حادثہ ایسا دل و جاں پہ نہ گزرا تھا کبھی اک قیامت ہے، مدینے سے جدا ہو جانا مجلس احرار کے بانی مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے طفیل اس شہر میں مسلم لیگ کا چراغ برسوں نہ جلا؛تاہم 1946ء کے الیکشن میں جواں سال شوکت حیات کے مقابل وہ طوفان میں بہہ گئے۔ آزادی کے بعد پاکستان پہنچے تو کسی نے کہا: آپ تو اس دیس کے مخالف تھے۔ خوددار آدمی لوٹ گیا۔ مولانا تاج الدین احراری کا ذکر بھی اکرام سے ہے۔ 1947ء کے فسادات میں ایک لاکھ مسلمان نشیبی محلّے میں جمع ہو گئے۔ بارش برسی تو زندگی زخم آلود بدن ایسی ہو گئی۔ اوّل اوّل گاڑیاں چلتی رہیں۔ پھر بند ہوئیں؛حتیٰ کہ ایک لاکھ جوان، بچّے، بوڑھے، مرد اور عورتیں پیدل چل کر خواب نگر پہنچے۔ مولانا تاج الدین مظلوموں کے نگہبان تھے۔ سب سے آخر میں پاکستان پہنچے۔ شورش کاشمیری نے لکھا تھا: چوہدری افضل حق نے احرار کو وصیت کی تھی کہ پاکستان کی ہرگز مخالفت نہ کریں مگر قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہنے والے مولانا مظہر علی اظہر نے کانگریس سے قیمت وصول کر لی۔ کانگرس کا روپیہ اور ابو الکلام آزاد کی تردماغی۔ کتاب میں ذکر نہیں۔ بین السطور پر غورو فکر سے مگر کتنے ہی نکات کھلتے ہیں۔ لدھیانہ کو برصغیر کا مانچسٹر کہا جاتا، جس طرح کہ بعد ازاں فیصل آباد کو۔ دونوں کی پہچان پارچہ بافی۔ دنیا بھر کے لیے سوتی دھاگے کا نرخ فیصل آباد میں متعین ہوتاہے۔ حاجی اسلم اس صنعت کے لیے ایک ہفتہ وار جریدہ بھی چھاپتے ہیں۔ ہماری گھریلو پارچہ بافی بہترین سہی، مارکیٹنگ کے باب میں سائنسی انداز ِ فکر ہم نہیں رکھتے وگرنہ کتنی ہی سرزمینیں تسخیر کی جا سکتیں۔ 1947ء کے مظالم کی روداد اذیت ناک ہے اور یاد دلاتی ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جائے، تاریخ اسے بھول جاتی ہے۔ اجتماعی حافظہ اکثر کمزور ہوتاہے۔ بھارت عالمی استعمار کا ساجھی ہے۔ کچھ منشی اور محرّر کرایے پر امن کے گیت گاتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ سب کچھ بھلا دیا جائے۔ نفرت کوئی اندوختہ نہیں اور جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔یک طرفہ طور پر سب کچھ مگر بھلا کیسے دیا جائے؟ حاجی صاحب کے اعداد و شمار قابلِ اعتماد ہیں اور کتاب انکشافات سے بھری ہے۔ مثلاً 1881ء میں برصغیر کی کل آبادی 3کروڑ تھی، جو اب ایک ارب ساٹھ کروڑ ہو چکی۔ اس میں مختلف قدیم قبائل، راجپوت، بٹ، تیلی، کمہار، لوہار، جولاہے، فقیر، موچی، میراثی اور قصائی کیا تناسب رکھتے تھے۔ مہاجر مسلم قبائل آرائیں، سیّد، اعوان اور مغل کتنے؟ متنوع موضوعات کو حاجی اسلم نے نمٹایا ہے۔ پھر ایک نتیجہ اخذ کیا۔ ہندوؤں کے قلوب میں پلنے والی نفرت کا سبب سات سو برس کی مسلم حکمرانی ہے۔ بھارتی انگریزوں سے نفرت نہیں کرتے۔ وہ چلے گئے، سماج کا حصہ نہ بنے۔ ہندو کے پندار کو اس سے بھی ٹھوکر لگی کہ 2900 سال قبل جین مت کے علاوہ، 2600سال پہلے بدھ مذہب نے باقی رہنے والا چیلنج پیدا نہ کیا۔ ان کے رشیوں اور منیوں کے بت بنا لیے مگر اسلام کو تحلیل نہ کر سکا۔ محمد مصطفیؐ کے دین میں توحید کا تصور اس قدر گہرا تھا کہ اصنام پرستی ممکن ہی نہ تھی۔ برصغیر کے مقدر میں کشمکش ہے، جسے شائستہ اور مہذب کرنا چاہیے۔ یکایک دوستی کا تصور احمقانہ ہے کہ اوّل دشمنی ختم کی جاتی ہے۔اس کے بعد کسی پیش رفت کا امکان جنم لیتاہے۔ ہمارے ہاں بھی احمقوں کی تعداد کم نہیں مگر بھارتی سیاست کے تیور نرالے۔ دلّی حکومت بات چیت میں لگی ہے۔ بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہِ محراب