آج مارچ کی بائیس تاریخ ہے صرف ایک دن کے بعد ہم قرارداد پاکستان کی 83 ویں سالگرہ منا رہے ہوں گے۔ویسے بھی یہ روایتی جملے ہیں ۔قومی دنوں کی یہ سالگرائیں سرکاری طور پر یا پھر ٹی وی چینلوں پر منائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ سکولوں اور کالجوں میں ایسے دن کی یاد منائی جاتی۔ پھر ایسے موقع پر روایتی خبریں بنتی ہیں کہ قوم نے پاکستان ڈے روایتی جوش و خروش سے منایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اگر ابھی باہر نکل کر اس حوالے سے دس لوگوں سے بات چیت کریں گے تو دس میں سے دس کی فکر کا محور پاکستان کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عام آدمی کے روز بروز بد تر ہوتے معاشی حالات ہوں گے۔یہ اس مملکت خداداد کے عام پاکستانی کی کہانی ہے جبکہ پاکستان کا ایک طبقہ ایسا ہے جسے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کے معاشی حالات کیسے ہیں؟ چالیس فیصد سے زیادہ مہنگائی میں اضافہ ہونے کے بعد سبزیوں گو شت دودھ اور ضرورت زندگی سے متعلقہ دیگر اشیاء کی قیمتیں کتنی بڑھ چکی ہیں ۔ کیونکہ زندگی سے متعلقہ ان کے سب معاملات ملک سے باہر ہیں اور اگر ملک میں بھی ہیں تو ان حالات میں کہ راوی ان کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔ یہ اشرفیہ کا طبقہ کسی نہ کسی صورت حکمرانی میں رہتا ہے۔اس میں ہر نوع کی اشرافیہ شامل ہے۔خاکی ،عدالتی ، سیاسی، بیوروکریٹک اور کاروباری اشرافیہ۔ یہ با اختیار طبقہ اب پاکستان کی کل آبادی کا 20 فیصد ہے ۔ یو این ڈی پی کی ایک ر پورٹ سامنے آئی ہے کہ یہ 20 فیصد طبقہ پاکستان کے خزانے سے سالانہ 17 ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ھے۔ 20طبقہ پاکستان کی پچاس فیصد دولت کا مالک ہے۔ حکومتی ایوانوں میں اس بیس فیصد طبقے کے نمائندے موجود ہیں۔ یہ طبقہ کسی نہ کسی صورت حکومت میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے جتنی بھی پالیسیاں بنتی ہیں اور جو بھی قانون سازی ہوتی ہے اس میں اس طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے کہ یہ خود پالیسی بناتے ہیں ،خود قانون سازی کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ اپنی مراعات پر زد نہیں آنے دیتے۔ پاکستان بننے کے 75 برسوں میں یہ طبقہ پہلے دن سے پھل پھول رہا ہے ۔ دوسری طرف وہ پاکستانی ہیں جن کے لیے رمضان المبارک کی آمد بھی سوہان روح بنی ہے ۔ رمضان المبارک کا استقبال پاکستان کے ہوس زدہ تاجر چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر کرتے ہیں پاکستانی تاجر میں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ پھر بیشتر تاجر ناجائز منافع خوری سے پیسے کما کے رمضان دستر خوان سجاتے ہیں اور ثواب کی امید بھی رکھتے ہیں ۔ ہر چیز کی قیمت بڑھا کر اپنے ہم وطنوں کے لئے زندگی اور مشکل کر دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔مسلمان ملکوں میں بھی رمضان کے موقع پر چیزوں کی قیمتیں کم کی جاتی ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر نعمت سے نوازا ہے لیکن پاکستانیوں کے دلوں میں ایثار ، ہمدردی اور احساس ذمہ داری کی کمی ہے اور تربیت کی بے حد ضرورت ہے۔محلے کی مساجد میں ہونے والے جمعہ کے خطبے میں مولوی حضرات کیوں نہیں ایسے دکانداروں کی اخلاقی تربیت کرتے کہ رمضان المبارک کی آمد پر آپ جائز منافع میں بھی کمی کر دیں ۔پھر دیکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے کاروبار ،صحت و زندگی کے دوسرے معاملات میں کتنی خیروبرکت عطا کرتے ہیں۔ لیکن ایسے موقع پر حکومت کہاں ہوتی ہے یہ سوال ہر سال رمضان کی آمد کے موقع پر ذہن میں آتا ہے۔قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں وصول کرکے ناجائز منافع کمانے والوں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہیں۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے صرف ایک ہی ایجنڈا بنا رکھا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو دباکے رکھیں۔ ان کے لوگ اٹھائیں۔ ان کے حق میں بولنے والے صحافیوں کو غائب کریں۔ یہی کام پی ٹی آئی والے اپنے دور حکومت میں کرتے رہے ہیں اور یہی کام اب یہ ٹولہ حکومت میں آ کر پی ٹی آئی کے خلاف کررہا ہے۔ تو ان سے کچھ ہوا نہیں۔ مفت آٹے اور مفت پیٹرول کا اعلان کرکے ایک نیا مسئلہ پیدا کرلیا ہے جس سے غریب پاکستانی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ فائدہ بھی وہ لوگ لے جائیں گے جو کسی نہ کسی طرح اہل اختیار ہیں۔ مفت آٹے کا اعلان غریب اور سفید پوش پاکستانیوں کے ساتھ بھیانک مذاق ہے۔ یہ سفید پوش پاکستانی اب حکومت کے مفت آٹا کے پوائنٹ پر جاکے سے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ بہت ہولناک خبریں آ رہی ہیں۔ملتان میں ایک بزرگ شخص مفت آٹا لینے کی خواہش میں دھکم پیل سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں مفت آٹا لینے والی خواتین کی طویل قطاروں میں کھڑی ہوئی کئی قابل احترام خواتین جھولیاں اٹھا کر حکومت وقت کو بددعائیں دے رہی تھیں۔میرا دل لہو لہو ہو جاتا ہے جب میں غریب وطن کو اس طرح ذلیل و خوار ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں، نہ جانے حکمرانوں کو کس طرح نیند آتی ہے۔بدترین، بے حس اور سنگ دل حکمران پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ جب میں آٹے جیسی بنیادی ضرورت کے لئے سفید پوش پاکستانیوں کو ذلیل و خوار ہوتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ان کی مجرم پاکستان کی وہ بیس فیصد اشرافیہ ہے جو پاکستان کی پچاس فیصد دولت کی مالک ہے اور بدترین معاشی حالات میں بھی سالانہ 17 ارب ڈالر مراعات کے نام پر ہڑپ کر جاتی ہے۔ منیر نیازی انہی حالات کے نوحہ گر تھے : میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا