آج جب یہ کالم لکھنا شروع کرنے والا تھا ‘ تین ٹیلی فون کالیں سنیں پہلی جواں سال دوست میاں اویس کی تھی‘ دوسری دیرینہ دوست ہر موسم ہر حالت کے جانے پہچانے جمیل احسن گِل کی اور تیسری پشاور سے خالد بھائی کے دوست جمال شاہ صاحب کی جو خالد بھائی سے ہوتے ہوئے گویا ہمارے گھرانے کا حصہ ہیں‘ یہ کالم ان تینوں سے ہونے والی بات چیت کا اختصاریہ سمجھئے۔ساری باتیں قیدی نمبر 804کے گرد گھوم رہی تھیں‘ عمران خان نے بھی کیا قسمت پائی ہے، جو بھی اس کے ساتھ جڑ گیا، وہ عارضی ہو یا مستقل گویا اس نے آبِ حیات پی لیا ہو‘ بیویوں سے سیاسی رفیقوں تک کھیل کے میدان کے ساتھیوں سے صحافت کے شہسواروں تک‘ اس کے ساتھ نبھانے اور چھوڑ جانے والے ‘ ساتھ نبھانے والے ’’ایسے ویسے‘ کیسے کیسے ہو گئے‘‘ اور ساتھ چھوڑنے والے ’’کیسے کیسے‘ ایسے ویسے ہو گئے‘‘ ابھی تھوڑی دیر پہلے رانا عزیز کی طرف سے بھیجا گیا انڈین ٹیلی ویژن کے میزبان کا تبصرہ سن رہا تھا‘ دوست تو کیا دشمن بھی اس کی ہمت کی داد دیئے بلکہ عش عش کئے بنا نہیں رہ سکتا‘ خوش پوش میزبان کہہ رہا ہے ’’پوری دنیا کے لیڈروں کو عمران خاں سے سیکھنا چاہیے کہ آخر جیل میں بند قیدی نے چنائو میں اپنے امیدواروں کو کیسے جتایا‘‘ یہ اپنے آپ میں ’’کہیں سٹڈی‘‘ پوری دنیا میں حکمرانوں (نیتائوں) کو اس سے سیکھنا چاہیے‘ میں تو کہتا ہوں نیتائوں کو ہی نہیں سب کو زندگی بھر کے لئے اس سے سیکھنا چاہیے کہ وہ جو جیل میں بند ہے اسے اب تک مایوس اور ٹوٹ‘ پھوٹ جانا چاہیے تھا‘ ہار مان لینی چاہیے تھی‘ وہ آدمی نہ تو ٹوٹا نہ ہی اس نے ہار مانی‘ اس نے طے کیا کہ وہ لڑے گا کیونکہ وہ ایک فائٹر ہے۔‘‘ وہ صرف خود ہی نہیں لڑا‘ اس نے پوری قوم کی تربیت کی حوصلہ بخشا ‘ سکھایا ‘ بیدار رکھا پرامن رہ کر جیتنے کا سلیقہ بھی دیا‘ صبر‘ حوصلہ‘ ثابت قدمی اور امید‘ یہی نہیں اس نے ایسے ذرائع تلاش کئے اور ان کا استعمال سکھایا کہ بدترین حالات اور فوری فیصلہ اور اطلاعات کا تیز رفتار ذریعے کا کام میں لانا بھی بتا دیا‘ یہاں قارئین کے لئے ایک مثال دینا ہی کافی ہو گا ’’لودھراں میں جہانگیر ترین کے مقابلے میں شفیق آرائیں کو اتارا گیا‘ شفیق آرائیں کا غالباً نواسہ غائب کر دیا گیا‘ عزیز کی محبت میں شفیق نے جہانگیر ترین کی بیعت کر لی‘ اب دوسرا امیدوار میدان میں وہی نسخہ پھر سے آزمایا اس کا پوتا نامعلوم کے ہاتھ لگا یہ زخم بھی کاری تھا وہ بھی سہہ نہ سکا اور ہتھیار ڈال دیے اب ایک محترمہ مقابلے کو نکلیں تو کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کس طرح ترین صاحب کے ڈرائنگ میں ظاہر ہو کر سرنگوں لوٹ گئی اب پولنگ کو چند گھنٹے باقی تھے‘ اس کا نام اور نشان کس طرح ووٹر کو معلوم ہو؟ ترین صاحب کے لئے میدان صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ٹہلتے ہوئے ’’وکٹری سٹینڈ‘‘ تک پہنچنے کا فاصلہ طے ہونے سے پہلے’’ تخت بلقیس‘‘ کے حضرت سلیمان ؑ تک پہنچنے کی طرف پل کے پل میں خبر پھیل گئی اور حریف نے وکٹری سٹینڈ کی راہ میں دھر لیا’’تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں‘ ‘ ؎ میں تو مقتل میں بھی مقدر کا سکندر نکلا‘ قرعۂ فال میرے نام کا اکثر نکلا‘شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر‘میں نے جس ہاتھ کو چوما‘ وہی خنجر نکلا‘تو یہیں ہار گیا تھا‘ میرے بزدل دشمن ‘مجھ سے تنہا کے مقابل‘ تیرا لشکر نکلا فرازیہ میرے سامنے ایک ناتواں بزرگ کسی ٹیلی ویژن کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے‘ گردے فیل ہو جانے کی جاں لیوا بیماری میں مبتلا ہے۔ رپورٹر سوال کرتا ہے‘ ووٹ کاسٹ کر دیا آپ نے؟ جی کر دیا‘ اس کمزوری اور بیماری کی حالت میں آپ ووٹ ڈالنے آ گئے؟ جی ہاں میں گردوں کی بیماری کے سبب ڈیلائسز کرواتا ہوں‘ ساتھ جسم میں پیوست سرنجیں دکھاتے ہوئے ‘ آپ کیوں آئے؟ سر میں پاکستان بچانے آیا ہوں‘ کس کو ووٹ ڈالا ؟ سچائی کو‘ کون سچا ہے؟ سب کو پتہ ہے‘ وہی جو جیل میں ہے۔ جیل میں تو خان ہے؟ ہاں وہی سچا ہے‘ اسی کو ووٹ ڈالا ہے‘ میں نے پاکستان کو ووٹ ڈالا ہے‘ ہم نے پاکستان کو بچانا ہے‘ یہ کہتے ہوئے وہ بزرگ رونے لگے تو پوچھا آپ اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟ پاکستان‘ پاکستان بچانا ہے بیٹا پاکستان ڈوب رہا ہے‘ ہمیں ہر حال اسے بچانا ہے‘ کیا ایسے حالات دیکھے پہلے کبھی؟ نہیں نہیں‘ دیکھیں کسی پارٹی کا ٹینٹ نہیں لگنے دیا گیا صرف ایک پارٹی کے ہیں انہیں سے پرچی بنوائی ہے‘ آپ نے نون لیگ کے کیمپ سے پرچی بنوائی ؟ ہاں انہی سے بنوائی ہے‘ ووٹ آپ نے تحریک انصاف کو ڈالا‘ نہیں سچائی کو ووٹ ‘ پاکستان کو دیا‘ قومی اسمبلی میں سلمان اکرم راجہ اور نیچے فرخ جاوید کو۔ یہ ایک بزرگ کی گفتگو ہے‘ ان کے بزرگوں نے پاکستان کے لئے قربانی دی‘ آج پھر ان کی اولاد‘ بیماری اور بڑھاپے میں پاکستان کی خاطر دیوانہ وار نکلی ہے‘ ان کی نظر بس ایک شخص پر آن لگی ہے۔؎ رانا جی میں تو پریم دیوانی‘ میرا دوسرا نہ کوئے (میرا بائی) جس کامران کے ساتھ دنیا ہے ذرا اس کی سنیے ’’کامران خان اپنے پروگرام میں کہتے ہیں‘ تمام تر فسطائیت کے باوجود اس نے تمہیں ہرا دیا‘ اگر حلالی ہو تو شکست مان لو اور ملک سے غداری نہ کرو‘ وہ سیاسی جماعت جس کے پاس اس انتخابی نشان بلاّ نہ تھا۔ نہ انتخابی مہم انہوں نے چلائی نہ ان کا لیڈر میدان میں تھا‘ نہ انتخابی مہم‘ نہ بینر‘ نہ پوسٹر‘ نہ جھنڈا‘ نہ جلسے کی اجازت نہ جلوس کی نہ کارکنوں کو آزادی نہ امیدوار حاضر نہ ہی برسر زمین کسی طرح کی سرگرمی وہ پارٹی آج الیکشن میں آگے آگے آگے نظر آتی ہے‘جو سہولت مسلم لیگ نون کو حاصل تھی‘ جس کا مخالف ہاتھ پائوں توڑ کر‘ اس کی گردن توڑ کے‘ اس کا منہ توڑ کے‘ اس کا بازو مروڑ کے مسلم لیگ کے سامنے پھینک دیا گیا کہ اب سے لڑو‘ اس کو ہرائو مگر وہ اس کیفیت میں بھی آج تحریک انصاف کو شکست نہیں دے سکی۔ یہ الیکشن بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف جس کا نام تھا نہ انتخابی نشان تھا نہ ہی امیدوار حلقے میں حاضر ہو سکتا تھا‘ نہ انتخابی مہم انہوں نے چلائی، ان حالات میں بھی انہوں نے اپنے مخالفین کو عبرت ناک شکست دی ہے‘‘ یہ ماننا پڑے گا کہ جن کڑے حالات نامواقف ماحول فسطائیت کے ماحول میں خود کو پردے میں رکھتے‘ اپنی پہچان چھپاتے ہوئے بھی باہر نکل کر ووٹ ڈالا ایسے امیدواروں کو بھاری اکثریت دلائی جن کی شکل سے آشنائی تھی نہ کبھی نام سنا نہ کوئی ملاقات ہوئی نہ اس کی اہلیت کا پتہ‘ اس کے باوجود ایک قیدی کے ساتھ وفا کی وعدہ نبھایا‘ یہ وفا‘ یہ عہد جو استوار ہوا یک طرفہ نہ تھا‘ ان کے قائد نے عوام کے ساتھ کئے وعدوں کو نبھایا‘ جان کو خطرے میں ڈالا عزت و ناموس کو دائو پر لگایا لیکن بھاگ‘ سودا بازی کرنے‘ سہولت وآرام تک طلب کرنے سے بھی انکار کر دیا‘ وہ ڈرا نہیں‘ جھکا نہیں تو اس کے جواب میں اس کی قوم نے بھی عہد استوار رکھا‘وہ محبت اور وفا کی حد قائم کر دی شاید کوئی دوسری قوم اس حد سے گزری سکے گی: وفاداری‘ بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو گاڑو کعبہ میں برہمن کو آنے والی کتنی ہی صدیوں تک لوک داستانوں میں ایک شخص سے اس کی 25کروڑ پر مشتمل قوم کی داستان محبت سنایا کرے گی: جاں تم پر نثار کرتا ہوں میں نہیں جانتا دعا کیا ہے (غالب)