غزہ میں جاری جنگ کو ستر روز سے زائد ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری اور جنگی جنون نے وہاں کسی کو نہیں بخشا۔ گھر، اسکول، کالج، یونیورسٹی ، مساجد، ہسپتال ، تمام پناہ گزین کیمپ سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہے لیکن اسرائیل کی بربریت رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ 7 اکتوبر کو حماس کے نام سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک بیس ہزار سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سب سے زیادہ تعداد کم عمر بچوں کی ہے جبکہ لگ بھگ پچاس ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ 80 سے زائد صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ناصرف غزہ بلکہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والی صحافی برادری بھی اسرائیل کی بربریت سے نہ بچ سکی۔ اقوام متحدہ کے کارکنان ہوں یا بین الاقوامی صحافی ، کسی کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی حتی کہ رفح کراسنگ بارڈر پر امدادی سامان کے سینکڑوں ٹرک بھی مستحقین تک پہنچنے نہیں دیے گئے۔ کھانے پینے کی اشیاء کو جلا دیا گیا، پینے کے صاف پانی کو بہا دیا گیا اور ادویات کو ضائع کر دیا گیا۔ گویا بم و بارود کے بعد اسرائیل وہاں کے بے گناہ اور معصوم شہریوں کو بھوک و افلاس سے مارنا چاہتا ہے۔ جنگ سے متاثرہ مفلوک الحال عوام اب اپنے زخموں کیساتھ بھوک سے بھی لڑ رہی ہے۔ جنازے اتنے آٹھ چکے ہیں کہ اب دفنانے کی جگہ نہیں بچی۔ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے دل دہلا دینے والے مناظر نے سینوں کو چیر کے رکھ دیا ہے۔ وہاں کا نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے اور رہی سہی کسر حالیہ بارشوں نے پوری کر دی ہے۔ پانی ، بجلی، گیس،ایندھن اور غذائی قلت کی بناء پر وبائی امراض پھیلنا شروع ہو گئے ہیں۔ گویا ہر جانب سے فلسطینیوں کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے لیکن سلام ہے انکے حوصلے اور جرآت کوجو ان بدترین حالات میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ابھی تک نہیں رک سکا۔ امریکہ، فرانس ، اٹلی، جرمنی، یورپ ، یوکے، اور تمام اسلامی ممالک سبھی سراپا احتجاج ہیں کہ دوماہ سے جاری اس جنگ کو اب رک جانا چاہیے۔ لیکن حیران کن پہلو یہ ہے کہ اتنی مخالفت اور عالمی مذمت کے باوجود اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہوا۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر اسرائیل کے پاس ایسی کونسی طاقت سے ، ایسا کونسا اختیار ہے جسکے بل بوتے پر اتنی ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے اور کھلم کھلا جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ امریکہ اسکی پشت پناہی کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ اجلاس میں امریکہ نے جنگ بندی کے مطالبے کو ویٹو کر دیا ہے۔ تمام ممالک اور ارکان پارلیمنٹ کی شدید مذمت کے باوجود کسی کی نہیں سنی۔ امریکہ اور اسرائیل طاقت کے نشے میں اتنے چور ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنے مخالفین کی بڑھتی تعداد نظر نہیں آرہی۔ اسوقت امریکہ کی ستر فیصد عوام جنگ بندی کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے جبکہ اسرائیل میں بھی جنگ بندی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لیا ہے۔ امریکی عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی یہ حکومت اب بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے اور کم و بیش یہی حالات اسرائیل میں بھی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے استعفوں کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ اسرائیل میں دن بدن جنگ بندی نہ کیے جانے پر جارحیت بڑھتی جارہی ہے لیکن فی الحال کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ دوسری جانب زمینی کارروائی کے دوران اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینیوں کو زیر حراست لیا ہے اور انکے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے۔ نہ کوئی مقدمہ ، نہ کوئی وکیل ! پکڑے جانے والے افراد میں اکثریت بچوں کی ہے۔ بچوں کی غیر انسانی اور غیر قانونی گرفتاری پر بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پر اسوقت شدید دباؤہے اور جنگ کو نہ روکے جانے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ گویا اپنا پالا ہوا لاڈلا اسرائیل اب ایسی سر دردی کا باعث بن گیا ہے جو قابو سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی تنبیہہ کے باوجود اسرائیل نے غزہ پہ بمبارمنٹ کا سلسلہ نہیں روکا۔ دوسری جانب اسرائیل کی مصنوعات کے بائیکاٹ نے بھی انہیں شدید اقتصادی نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل نے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے جنگ کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ اور حماس کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اب ظلم کا سورج ڈوبنے والا ہے۔ ظالم اور اسکے ساتھی اپنے ہی بنائے ہوئے گڑھے میں گرنے کو تیار ہیں۔ اسلامی ممالک کی بے بسی اور بے حسی کا تماشا تو ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں لیکن آئندہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کی بربادی بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ ظلم پر خاموشی ظالم کے حوصلے بڑھاتی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تمام اسلامی ممالک کی مجرمانہ خاموشی کی سزا سبھی کو بھگتنا پڑے گی۔ اور اس جرم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ اپنے اپنے مفادات میں بندھے یہ سیاستدان اور عالمی رہنما، بھلے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، سبھی نے اپنی عوام کو شدید مایوس کیا ہے۔ دنیا میں ہر باشعور اور احساس رکھنے والا انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ کسی کو اپنی عوام یا عام آدمی کی پرواہ نہیں۔ تمام حکمران اور مقتدر طبقہ اپنے مفادات ، طاقت اور اسکے حصول کیلیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ عوام انکے لیے محض ٹیکس ادا کرنے والے "آزاد غلام" ہیں اور کسی کو انکی کوئی پرواہ نہیں۔ اور کوئی بعید نہیں کہ وقت آنے پر یہ ظالم و جابر حکمران اپنی ہی عوام کو قربانی کا بکرا بنانے میں چند لمحوں کی تاخیر نہیں کریں گے۔ ان تمام عالمی رہنماؤں نے اپنے تابوت میں آخری کیل تو ٹھونک دیے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی عوام کی قبریں بھی تیار کر لی ہیں گویا جیئیں گے نہ جینے دیں گے!