الیکشن سے ایک دن پہلے یعنی سات فروری بروز بدھ دو مقامی اخبارات کے دفتر میں جانا ہوا‘ دونوں کے مالکان سے ملاقات رہی دونوں جگہوں پر ایک سے سوال تھے تو ظاہر ہے کہ جواب بھی ایک سے رہے ہونگے۔غازی عبدالرشید صاحب کا اخبار ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ غازی صاحب کے بعد ان کے جواں سال نواسے ’’ہمایوں طارق‘‘ کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے اس اخبار کو فیصل آباد کا سب سے بااثر اور اشاعت میں نمبر ایک مانا جاتا ہے ۔دوسرا ’’ڈیلی یارن‘‘ حاجی اسلم صاحب شائع کرتے ہیں‘ جو دو ٹیکسٹائل ملوں کے مالک بھی ہیں۔حاجی صاحب کی ایک بڑی ’’عادتِ بد‘‘ یہ ہے کہ ان سے بات شروع کرو تو فوراً کاغذ سامنے کھسکا کر بات چیت لکھنا شروع کر دیتے ہیں‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ موضوع کیا ہے جو باتیں ہو رہی ہیں وہ لکھنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں‘ انہیں بس لکھتے جا رہنے کی گویا عادت سی ہو گئی ہے‘‘ آج کالم کے لئے یادداشت تازہ کرنے کے لئے حاجی اسلم کو فون کر کے سات فروری کو ہونے والی بات چیت کے بارے دریافت کیا۔ ہماری گفتگو کے دو حصے تھے۔ 1۔ انتخابات کے نتائج 2۔ حکومت سازی 3۔ نئی حکومت کا مستقبل۔ یہ موضوعات ہماری باتوں کا ہی محور نہیں تھے‘ پوری قوم انہی موضوعات پر بات بھی کر رہی ہے اور مزید جاننے کے لئے بیقرار بھی ہے۔ جہاں تک انتخاب کے دن کی بات نوجوان اور خواتین بہت بڑی تعداد میں نکلیں گے‘ اگرچہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے ووٹر کی رہنمائی کے لئے کیمپ ہونگے نہ کارکن لیکن سوشل میڈیا کی برکت سے کوئی انجان نہیں رہ گیا ہر کوئی جانتا ہے اس کا ہدف کیا ہے 60فیصد سے 70فیصد کے درمیان ووٹ ڈالے جانے کا امکان ہے‘ ہو گیا سو گیا‘ انتخابی نشان ہے‘ جلسہ نہ جلوس‘ امیدواروں کو ووٹر تک رسائی کی اجازت ہے نہ کارکنوں کو باہر نکلنے دیا جا رہا ہے‘ بینر‘ پوسٹر‘ جھنڈا نہ انتخابی نشانات کی تشہیر‘ ہر طرف مسلم لیگ دندناتی پھرتی ہے‘ انتظامیہ ان کے حکم کی باندی‘ عبوری حکومتیں دم چھلا‘ اگر یہاں پر بھی بات ختم کرنے کے بقدر 2013 ء جو دھاندلی نواز شریف کے لئے کی گئی بس اس تک مزید کر لیں اور نتائج کو تبدیل نہ کریں تب بھی پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت سے جیت جائے گی۔ گندا اور ننگا کھیل ضرور رچایا جائے گا‘ اب ووٹر اور سہولت کاروں کی آزمائش پی ڈی ایم کو کچھ بھی نہیں کرنا‘ نچلے بیٹھ کے تماشہ دیکھنا ہے۔ پی ٹی آئی زیر ہوئی تو اقتدار ان کا‘ چلی چلے جب تک چلے ‘ اگر میدان پی ٹی آئی کے ہاتھ رہا’’جاٹ جانے اور بجو جانے‘‘اگر تحریک انصاف کی اکثریت کو پرانے ہتھکنڈوں سے بدل لیتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ وہی ہو گا جو 9اپریل 2022ء کو ہوا تھا اور اس کا ردعمل یقینا دس اپریل 22کے ردعمل سے زیادہ شدید اور سنگین ہو سکتا ہے‘ جاری بحران زیادہ گہرا ہو جائے گا‘ معاشی حالات کو سنبھالنا‘ امن رکھنا دشوار ہے۔2۔ تحریک انصاف یقینا مزاحمت کرے گی‘ عوامی رائے ووٹ کی صورت ظاہر ہو چکی ہو گی‘ نواز کی قلعی اتر جائے گی تو عدلیہ اور انتظامیہ کا موڈ پہلے سا نہیں رہے گا‘ مزاحمت کارگر ہوئی‘ عدلیہ نے تھوڑا عدل بھی کیا تو تحریک انصاف‘ مرکز ‘ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائے گی اور آئندہ برس نومبر سے پہلے نئے انتخابات کا ڈول ڈالے گی۔ خصوصاً مرکز میں اگر سہولت کار دوسری بار بروئے کار آئے تو بھی حکومت مسلم لیگ کی نہیں ’’پی ڈی ایم‘‘ کی بنے گی اور وزیر اعظم شہباز شریف ہونگے‘ تب نواز شریف‘ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی بجائے مریم نواز‘ کے لئے پنجاب کی حکومت اور خود صدر پاکستان کا منصب طلب کریں گے اور وزارت عظمیٰ پیپلز پارٹی کے لئے چھوڑ دیں گے‘ ہر دو صورت میں ’’حکومت پی ٹی آئی کے بنے یا پی ڈی ایم‘‘ کی ’’عمران خاں کی پیش گوئی ‘‘ پوری ہونے والی ہے یہ کہ ’’2024ء انتخابات کا سال ہے اور 2025ء بھی نئی حکومت اگر پی ڈی ایم کی بن جائے تو بھی خیبر پختونخواہ میں وزیر اعلیٰ عمران خان ہی کا نامزد کردہ ہو گا‘ مرکزی حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہوں اور تحریک انصاف پر دبائو کم ہوتا جائے گا‘ عمران خان عنقریب جیل سے نکل کر متحرک ہونگے تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ عوام کا موڈکیا سے کیا ہو جائے گا۔ مختصر یہ کہ نواز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے وہ پنجاب حکومت کے لئے ہاتھ پائوں مارتے رہ جائیں گے اور وزارت عظمیٰ کا تاج تحریک انصاف کے سر سجے گا یا پیپلز پارٹی کے‘ صدارتی منصب کے لئے سہولت کار کوئی اپنا امیدوار سامنے لا سکتے ہیں۔3۔ انتخابات اور حکومت سازی کے درمیان ایک وقفہ عدلیہ کی طرف نظریں جمائے رکھنے کا بھی‘ دیکھنا ہو گا کہ پرانی روش برقرار رہتی ہے یا عوامی شعور کا معیار قانون دانوں کے شعور میں بھی اضافے کا سبب بنتا ہے‘ ایک بات طے ہو گئی کہ تحریک انصاف کی عوامی طاقت اور عوام کی بیداری اس سے کہیں زیادہ ہے‘ جتنا کہ ہر کوئی خیال کرتا رہا ہے‘ تمام تر محرومیوں‘ پابندیوں گمنامی کی کوششوں کے باوجود‘ عمران خاں کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔عمران خاں کی مقبولیت کے دو بڑے سبب ہیں۔1۔ اس کی شخصیت‘ بہادری اور ثابت قدمی۔2۔ حریفوں سے عوام کی نفرت’1۔ اگر ہم دیانت دار ہو کر سوچیں تو عمران خاں کے کارناموں سے زیادہ اس کے ذاتی اوصاف اور شخصی کشش اور وجاہت اس کے کام آئی ہے۔ اس دو بڑے کارنامے یعنی ’’ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال‘ اس کے سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے بن چکے تھے‘ پہلا انتخاب اس نے 1997ء میں لڑا اور اس کی تحریک انصاف نے بھی لیکن اسے ایک بھی حلقے میں کامیابی نہیں مل سکی‘ ایسی عبرتناک شکست تھی جو آج کل جماعت اسلامی کے حصے میں آیا کرتی ہے‘ اس کی اپنی حیرت انگریز خوبی ہی اس کے کام آ سکی کہ اس نے میدان چھوڑنے مایوس ہونے اور شکست ماننے سے انکار کر دیا‘ اسے نجی بحرانوں اور پے درپے سیاسی ناکامیوں سے واسطہ پڑا لیکن وہ ثابت قدم رہا‘ جب وہ بدترین سیاسی شکست سے دوچار تھا‘ تب بھی حریف اس سے خوفزدہ رہے اور انہوں نے سیاست میں حصہ داری کی پیش کش کی‘ بے نظیر اسے اسمبلیوں میں حصہ دینا چاہتی تھی اور نواز شریف نے بھی پینتیس(35) سیٹوں کا لالچ دیا‘ اس کے ہمسفروں کی رال ٹپک گئی اور صلاح کاروں نے مشورے دیے‘ سیانوں نے آن سمجھایا‘ کہ آپ کے دو حریف میں پہلے ایک کے ساتھ مل کر ایک کا صفایا کرو پھر دوسرے کی باری‘ اس نے ماننے سے انکار کر دیا‘ اس کا استدلال تھا کہ دونوں خونخوار لٹیرے ہیں ایک کا ساتھ دینے کا مطلب ہے کہ آپ لٹیروں کے ہم سفر بن جائو‘ دو ہیں تو دونوں سے لڑوں گا‘ جب تک جان ہے میں قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور سماجی ہمواری کے لئے ان کا مقابلہ کروں گا دانشوروں کے نزدیک اسے سیاست نہیں آتی‘ آکسفورڈ میں سیاسیات اور تاریخ میں ڈگری یافتہ کو یہ چیلنج کرتے رہ گئے۔1997ء میں شکست پر اس کا تبصرہ تھا کہ ’’گھبرائیے نہیں میرا ووٹر ابھی سکول میں ہے‘ اس کا ووٹ بننے دو تب تک میں انتظار کرونگا۔ ننھے طالب علم اٹھارہ برس کے ہو کر ووٹر بنتے گئے ان کا جوہر پہلے پہل اکتوبر 2011ء میں کھل کے سامنے آیا۔ اس کے بعد چل سو چل ایسی آندھی لے کر آیا کہ’’سب کے چراغ بجھ گئے‘‘