رائے عامہ کے جائزوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اور تمام تر مشکلات کے باوجود رجب طیب اردوان نے ترکیہ کے صدارتی انتخاب کے معرکہ میں کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ چونکہ 14مئی کو ہونے والے انتخابات میں چار امیدواروں میں سے کسی کو بھی 50فیصد جمع ایک ووٹ نہیں ملے تھے، اس لئے 28مئی کو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواراں حکمران جمہور اتفاقی یعنی پیپلز الائنس کے امیدوار صدر اردوان اور متحدہ اپوزیشن ملی اتفاقی یعنی قومی اتحاد کے امیدوار کمال کلیچ داراولو کے درمیان دوبارہ معرکہ ہوا۔ جس میں اردوان کو 52.15 فیصد جبکہ کلیچ داراولو کو 47.85 فیصد ووٹ ملے۔رات گئے جیت درج کرنے کے بعد انقرہ میں پارٹی صدر دفتر کی بالکونی سے کارکنوں کو خطاب کرنے کے بعد 29مئی کو استنبول میں انہوں نے عثمانی ترک سلطان محمد دوم کے ذریعے اس شہر کو فتح کرنے کی 570 ویں سالگرہ منائی۔ 1453 ء میںا ستنبول یعنی قسطنطنیہ کی فتح نے مغرب کی چولیںہلا کر رکھ دیں اور یہ رومن سلطنت کے زوال کا سبب بھی بنا۔ استنبول کی اس دوبارہ علامتی فتح اور اس کا جشن منانے میں مغرب کیلئے ایک واضح پیغام چھپا تھا۔ کمر توڑ مہنگائی، کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور اشیائے ضروریہ کی تیزی سے بڑھتی قیمتوں کے باوجود ترک ووٹروں نے استحکام اور تسلسل کو چن کر رائے عامہ کے جائزوں کو غلط ثابت کر دیا۔ صرف ایک ماہ قبل، تقریباً تمام رائے عامہ کے جائزے اردوان کے 20سالہ دور اقتدار کے خاتمہ کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ ان کی مقبولیت کا گراف بھی بس 32فیصد پر اٹکا ہو ا تھا۔ مگر پہلے راونڈ کی ووٹنگ میں یہ گراف 49.5فیصد اور دوسرے راونڈ میں یہ 52.15فیصد پہنچ گیا ۔ آخر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا، اس پر تو کئی برسوں تک بحث کی جائیگی، مگر حکمران آق پارٹی کے ذمہ دار بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ اردوان کے بغیرپارٹی اور حکومت میں کوئی بھی جیت کے سلسلے میں پر اعتماد نہیں تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ آج کی دنیا میں انتخابات انگریزی حرف کے تین Mکے امتزاج سے جیتے جاتے ہیں۔ یہ ہیں مین (Man)مشین اور میسج۔ اردوان کی صورت میں Man اور حکومت میں رہنے کی وجہ سے انسانی و مالی وسائل ، مگر ہاں میسج کے سلسلے میں وہ کمزور تھے، جو ان کو جلد ہی حاصل ہوگئی۔ جبکہ اپوزیشن کے پاس طاقتور میسج تو تھا، مگر اس کو عوام تک پہنچانے والی قوی آواز نہیں تھی۔ مشینری میں بھی وہ خاصے پیچھے رہ گئے۔ ترکیہ میں تقریباً اس بات پر اتفاق ہے کہ مغربی حکومتوں اور مغربی میڈیا کی کلیچ داراولو کی ڈھٹائی سے کئی گئی حمایت ان کو خاصی بھاری پڑ گئی۔ اردوان نے مغرب کی اس جانبداری کو خوب بھنا کر ترک قوم پرست جذبات کو ابھارا۔ جس کی وجہ سے ترک ووٹروں نے افراط زر، کمزور ہوتی ہوئی معیشت، اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو درکنار کرتے ہوئے مغرب کو سبق سکھانے کیلئے ترک فخر اور خودی کا انتخاب کیا۔اپنے جلسوں میں اردوان نیویارک ٹائمز میں 2020 میں موجودہ ا مریکی صدر جو بائیڈن کے انٹرویوکا حوالہ دیکر ترک عوام کو مغربی ممالک کی ملکی سیاست میں مداخلت کرنے سے خبردار کرتے تھے۔ بائیڈن نے کہا تھاکہ وہ اردوان کو شکست دینے کیلئے ترک اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ’’بائیڈن نے ہدایت دی ہے کہ ہمیں اردوان کا تختہ الٹنا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں۔ میرے تمام لوگ یہ جانتے ہیں۔ترک ووٹر بائیڈن کو اس کا جواب دیں گے۔‘‘ تقریبا ہر جلسے میں وہ اس طرح کا خطاب کرتے تھے۔ ترک خاصی قوم پرست قوم ہے۔ وہ اپنے ملک کی سلامتی اور اسکی سرحدوں کے حوالے سے خاصے حساس ہیں۔ شاید اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دوسو سالوں سے ا نکو شمال سے روس اور جنوب سے مغربی ممالک کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لئے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اپنے معاملات میں غیر ملکی مداخلت پسند نہیں کرتے ہیں۔ دارالحکومت انقرہ کے سٹی سینٹر میں اپنے صحافتی معمول کے مطابق جب ایک دن میں نے کئی عام افراد سے ووٹنگ اور سیاست کے موڈ کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے دوٹوک جواب دیا کہ انتخابات انکا اندرونی معاملہ ہے اور اس سلسلہ میں وہ کسی غیر ملکی صحافی سے بات نہیں کرینگے۔ میری ٹوٹی پھوٹی ترک زبا ن سے وہ سمجھ گئے تھے کہ میں غیر ترک ہوں۔ ملک کے جنوبی علاقے میں کرد گروپوں کی مسلح مزاحمت کا حوالہ دیتے ہوئے اردوان نے دہشت گردی، بغاوت، مغربی مداخلت اور ملک کی تقسیم کے تصورات کی تصویر کشی کی اور کلیچ داراولو پر دہشت گرد گروہوں سے تعلقات رکھنے کا الزام لگایا۔ کرد سیاسی جماعت ایچ ڈی پی نے کلیچ داراولو کی حمایت کی تھی، جس سے یہ خدشہ تھاکہ شاید پورا 12فیصد کرد ووٹ ان کی جھولی میں گر جائیگا۔ مگر اردوان اسلام پسند کرد فری کاز پارٹی کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح کرد ووٹ تقسیم ہو گئے۔ اپوزیشن کا ایک اور غلط اندازہ یہ تاثر تھا کہ جنوب مشرقی ترکیہ میں زلزلے سے متاثرہ گیارہ صوبے غیر موثر ہونے اور بروقت امدادی کارروائیاں شروع نہ کرنے کی وجہ سے اردوان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ 1999 میں تقریباً اسی شدت کے ایک زلزلے نے جس نے استبول کے نواح میں ازمت صوبے کو متاثر کیا تھا، اس وقت کے وزیر اعظم بولنت ایجاوت کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہی زلزلہ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اردوان کے اقتدار میں آنے کا ذریعہ بن گیا تھا۔ (جاری ہے)