اسلامی تاریخ میں متصوفانہ افکار اور فلسفیانہ نظریات کے حوالے سے امام غزالی ؒ کی شخصیت نہایت نمایاں اور معتبر ہے ۔مسلم فکر میں ’’فلسفہ اور تصوّف‘‘ کا خوبصورت امتزاج صرف اور صرف امام غزالیؒ کے ہاں ملتا ہے ،جوہمیشہ باطنی اسرار اور الفاظ کے اندر چھپی ہوئی معنویت کے ادراک کے لیے کوشاں رہے ۔ گوکہ ’’ صوفی اور فلسفی‘‘ اپنے مقصود ومنتہا یعنی ’’حقیقت مطلقہ‘‘ تک رسائی کے حوالے سے ہمیشہ سرگرداں رہتے ہیں ----تاہم دونوں کے طریقہ ہائے کار میں واضح فرق ہے ۔ ’’فلسفی‘‘ حقیقت کا فہم وشعور حاصل کرنے کے لیے عقل کو اپنا راہنما بناتا ہے ،جب کہ ’’صوفی‘‘ وجدان ،عشق ،ذوق اور جذبے کی وساطت سے حقیقت اور معرفت تک پہنچتا ہے ۔فلسفے اور تصوف کے مابین اس امتیاز کو ابو السعید ابو الخیر کے اس قول کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ----جو آپ نے معروف فلسفی ابن سینا کے اسرارِ کائنات سے متعلق ایک وقیع لیکچر کے اختتام پر فرمایا تھا ۔ ابو السعید ابو الخیر نے ابن سینا کی طویل گفتگو سننے پر کہا تھا کہ :’’ آپ جو کچھ جانتے اوربیان کرتے ہو ، میں اُسے آنکھوں سے دیکھتا ہوں ۔‘‘ بقول اقبال: علم کی حد سے پرے بندئہ مومن کے لیے لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے امام غزالی ؒ اور فلاسفہ کے درمیان بنیادی اختلاف بھی یہی رہا کہ فلاسفہ عقل کی برتری کے قائل تھے، جب کہ غزالی عقل کی نارسائی کے علمبردار ---- اقبال نے یقینا ایسی ہی صورت حال کے لیے کہا تھا : ؎ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں حجۃ الاسلام ابو حامد محمدبن محمدا لطوسی الشافعی الغزالی ؒ 1058ء بمطابق 450ھ خراسان کے علاقہ طوس میں پیدا ہوئے ۔غزالی ؒ آپ کا خاندانی نام تھا ۔ ’’غزل‘‘ کا مطلب ہے ’’کاتنا‘‘ ۔آپ کے خاندان کا ذریعہ معاش کپڑوں کی بُنائی تھا،جس کے سبب ’’ غزالی ‘‘ کے طور پر معروف ہوئے ۔غزالی ؒ کے والد تعلیم سے محروم رہے ، جس کا ان کو شدّت سے احساس تھا ۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا علم وفضل کے میدان میں نامور ہو ۔قدرت نے ان کی اس خواہش کو پورا کیا اور آگے چل کر غزالی ؒ نے مسلم مفکرین میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا ۔ امام غزالی ؒ اُمتِ مسلمہ کے وہ ’’نابغہ‘‘ ہیں جنہوں نے الٰہیات ،تصوّف ،منطق ،اخلاقیات اور علومِ دین میں لافانی نقوش ثبت کیے ۔امام غزالی ؒ نے ابتدائی تعلیم عام دینی مدارس سے حاصل کی ۔نیشا پور میں امام الحرمین کے روبرو ز انوئے تلمذ طے کیا،جواپنے عہد کی مقتدر علمی شخصیت تھے ۔ ان کے فیضِ صحبت سے غزالی ؒ کو علوم میں خصوصی مہارت میسر آئی ،امام صاحب ؒ ابھی چونتیس سال ہی کے تھے کہ ان کی شخصی عظمت اور علمی سطوت کا ڈنکا بجنے لگا۔ غزالی ؒ کی علمی شہرت اور قدر ومنزلت کی وجہ سے ،معروف سلجوقی فرما نرواالپ ارسلان او ر اس کے معتمد وزیر نظام الملک نے انہیں بغدادکے ’’مدرسہ نظامیہ ‘‘ کی مسندِ تدریس پیش کی۔ امام غزالی ؒ نے اس منصب کو نہایت عمدگی سے نبھایا اور بہت جلد ان کا شمار عمائدینِ سلطنت میںہونے لگا ۔ قدرت نے آپ کو دینی اور دنیاوی اعتبار سے وہ بلند ی اور عروج عطا کیا جو شاید کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا۔ غزالی ؒکے نظامِ فکر میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے اندازِ فکر ،طرزِ زیست اور منہجِ تحقیق کی ہے ۔آپ کا تعلق مفکرین اور فلاسفہ کے اس گروہ سے ہے جن کا اندازِ فکر خودان کی اپنی زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ اسی طریقہ کار کی وضاحت ہمیں خود ان کی داستانِ حیات میں ملتی ہے ۔جس کو آپ نے کتابی صورت میں قلمبند کیا ۔34سال کی عمر میں مدرسہ نظامیہ کے ’’صدر نشین ‘‘ کی مسند پر متمکن ہو نا ----امام غزالی ؒ کے تبحر علمی اور ان کی عظمت وشوکت کا آئینہ دار تھا ۔علمی اور دینی حوالے سے اس دنیا میںجو عظمتیں اور رفعتیں ہوسکتی ہیں وہ سب امام غزالی ؒ کو میسر تھیں ۔ عام روش کا تقاضہ تھا کہ امام صاحبؒ بقیہ زندگی اپنے اسی دائرہ فکر وعمل میں بسر کردیتے ، لیکن شاید وہ اس افتاد کے آدمی نہ تھے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ علوم کی یہ تدریس اور منصبی اعزاز واکرام ----مجھے قلبی اطمینان اور سکون عطا نہ کرسکا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا سب سے افضل عمل تدریس وتعلیم تھا ،مگر میں نے اپنے آپ کو ٹٹولا اور اس تدریس وتعلیم کی غرض وغایت اور نیت کو دیکھا تو مجھ پہ واضح ہوگیا کہ یہ سب کچھ خالص اللہ کے لیے نہ تھا، بلکہ اس کا محرک تو محض طلبِ جاہ اور حصولِ شہرت تھا ،وہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہوگیا کہ میں ہلاکت کی غار کے کنارے کھڑاہوں ،اگر میں نے اصلاح احوال کی کوشش نہ کی ،تو خطرے اورخسارے کا باعث ہوگا ،چنانچہ نظامیہ کی سربراہی سے دست کش ہو کر---- یقینی علم ،باطنی نور اور حقیقی معرفت کی تلاش میں سرگرداں ہونے کے لیے بغداد سے نکلا توعجب ذوق اور وارفتگی تھی ، پُر تکلف اور قیمتی لباس کی بجائے بدن پر کمبل او ر بوریہ اور لذید غذائوں کے بدلے عام ساگ پا ت پر گذر بسر۔ دمشق پہنچ کرمجاہدہ اورریاضت میں مشغو ل ہوگئے ،ساراسارا دن مراقبہ اور اوراذکار میں گزرتا ،امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگرچہ میں مراقبہ ومجاہدہ اور خلوت وریاضت کے طریقے کتب تصوّف سے پر سیکھ چکاتھا ،مگر میں بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ شیخِ کامل کی صحبت اور راہنمائی کی بغیر ، ان اشغال اور معمولات سے فیض حاصل کرنا مشکل ہے ،چنانچہ اس عہد میں تصوّف وطریقت کے امام شیخ بو علی فارمدی سے بیعت ہو کر ، باقاعدہ ان کے سلسلے میں داخل ہوا ۔ دس سال تک مسلسل اسی کیفیت میں رہا ۔ اکثر ویرانوں میں نکل جاتا اوربیانوں میں سفر کرتا ، ایسے ہی ایک سفر کے دوران ، میرے ایک جاننے والے نے ، ایسی حالت میںمجھے دیکھا جب بدن پر محض خرقہ او ربوریہ تھا اورہاتھ میں پانی کی چھاگل اور تھوڑا ساسامانِ سفر ----اس نے پوچھا کہ سینکڑوں شاگردوں کے حلقہ درس میں بیٹھ کر تدریس کرنا بہتر تھا یا یہ درویشانہ حالت، آپ نے اس کی طرف حقارت سے دیکھا اور پھر یہ اشعار پڑھے ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ :"کوئی بھی کام خواہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو بغیر سوچ وبچار کے اچھا نہیں ،لیکن ----بغیر سوچ وبچار کے دنیا سے دامن چھڑا لینا ---بہت اچھا ہے ۔" ایک لمبی اور پُر مشقت جدو جہد کے بعد ،امام صاحبؒ نے اپنی متاعِ گم گشتہ کو پالیا ۔ اس روحانی سفر سے واپسی پر امام غزالی ؒ نے اپنے ذہنی قلق و فکری اضطراب کی داستان کو اپنی مشہور کتاب ’’المنقذ من الضلا ل‘‘ میں لکھا۔ اس طرح آپ نے ان راستوں کو روشن کردیا جو "تلاش حق"کے لیے مستند اور معتبر ہیں ۔ اپنی اس کتاب میں امام صاحب ؒ نے دنیا پر واضح کیاکہ اگر چہ اس کائنات میں عمل کی بادشاہی ہے ، لیکن وہ اکیلی حق کاسراغ نہیں پاسکتی ہے ۔زندگی میں ایسے حقائق موجود ہیں، جن کا ادراک صرف انسانی وجدان اور صوفیانہ ذوق ہی کرسکتا ہے۔