ظلم پھر ظلم ہے، ایک دن اسے ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔جتنے دن گزریں گے اتنا ہی جنگ بندی کا دن قریب آئے گا۔زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ یہی امریکہ جو اس وقت اسرائیل کا پشت پناہ بنا کھڑا ہے ،یہ ٹِن اور ٹنگسٹن ہتھیانے کے لیے ویت نام میں گھس آیا تھا۔اسکے مقابل ویت کونگز نے اپنے دفاع کی پوری جنگ سرنگوں میں لڑی اور دشمن کو ذلت آمیز شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کیا۔پچیس سال کی جنگ کے بعدامریکی وہاں سیدم دبا کر راتوں رات امریکی ایمبیسی کی چھت سے ہیلی کوپٹروں پربھاگے۔وہ سرنگیں ایسی ناپ تول کر بنائی گئی تھیں کہ دبلے پتلے ویت کونگ ان میں گھس کر غائب ہوجاتے اور پلے ہوئے امریکی پھنس جاتے۔ ان کوایسا تگنی کا ناچ نچایا کہ ویت نام کی سرزمین فتح کرنے کا امریکی خواب ادھورا رہ گیا۔اب صیہونی دماغوں کو نیا کھیل سوجھ گیا ہے کہ ناجائز قبضے جاری رکھنے کے لیے دہشت گردی کو بہانہ بنالیں۔جمہوریت سے حماس برآمد ہوگئی تو انہوں نے حماس کو دہشت گرد ٹھہرا دیا۔ مگر آج ستمبر2001 نہیں جب سوشل میڈیا نہ تھا۔2010بھی نہیں جب جھوٹی ویڈیوز اور فیک نیوزکی شناخت نہ ہو سکتی تھی اور سوات میں طالبان کے لڑکی کو کوڑے مارنے کی خودساختہ ویڈیو نے پورے جنگی آپریشن کا اخلاقی جواز دے دیا تھا۔ ہزاروں فوٹیج اور پریس رپورٹیں سامنے آئیں،ہر طرف موبائل ویڈیوز بنتی رہیں، ہسپتالوں کے اندر، ملبے کے اوپر،لاشیں اٹھاتے ہوئے،بچے ڈھونڈتے ہوئے، کہیں حماس کے لیے کوئی منفی تبصرہ ، اپنی حالت کا کوئی الزام سننے کو نہیں ملا،یہ کہنا تو دور کی بات کہ حماس ہمیں انسانی ڈھال کے طور پہ استعمال کررہی ہے، یا ہمیں نقل مکانی سے روک رہی ہے۔جب انتہا کی حق تلفی اور مظلومیت، بہادری،سخت جانی اور خودداری سے مل جاتی ہے تو حماس خودبخود جنم لیتی ہے۔اگر حماس دہشت گرد ہے تو پھر ہر فلسطینی حماس ہے اور نیتن یاہو، جوبائیڈن اور رشی سوناک یہ بات جانتے ہیں، اسی لیے فلسطینیوں کی نسل کشی کررہے ہیں بشمول ان کے جو ابھی دنیا میں آئے بھی نہیں۔ یہ سیٹلر کون ہیں؟ انسانوں کی شکل میں ایسے درندے جن کو ہتھیار فراہم کر کے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ گھر چھین کر اس کے مالک کو مارپیٹ کے بھگا دو یا مار ہی دو،ملکی قانون پوری اجازت دیتا ہے اور بین الاقوامی قانون ہے تو ہوتا رہے، کس کی جرأت ہے کچھ کہے۔کون سوچ سکتا ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں ایک بڑی انسانی آبادی کے ساتھ پچھلے پچھتر سال سے مستقل یہ ہورہا ہے، اور اس عمل کی براہ راست نگرانی وہ کررہے ہیں جنہوں نے اپنی آبادیوں کوایک طرف انسانوں ہی کے نہیں،جانوروں اور پودوں کے بھی بے کار کے حقوق کے پیچھے لگا رکھا ہے،اور دوسری طرف انہیں ماحولیات کا رونا ڈال کے خود ہزاروں ٹن فاسفورس اور ممنوعہ بمباری کرکے ماحولیات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان درندوں کے درمیان رہنے والے فلسطینی شہری اس سے زیادہ غیر محفوظ ہیں جتنے جنگل میں رہنے والے جانور، کیونکہ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے ! حماس اپنے مقاصد کس حد تک حاصل کرسکی، اس پہ تجزیے جاری ہیں، البتہ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب مقدمہ حق کا ہو اور ہر خوف اور لالچ سے بالاتر ہوکرجان کی بازی لگادی گئی ہو تو اس کے ثمرات کئی پہلوؤں سے سامنے آتے ہیں۔ سچائی کو یہ خاص وصف ملا ہے کہ اس پہ قائم ہونے والوں کی کوشش اصل سے زیادہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ اسی لیے زخموں سے اٹے،شہید ہوتے،سڑکوں ، خیموں ، ہسپتالوں کی راہداریوں، کیمپوں میں پناہ لیے فلسطینی اپنی ابتر حالت میں بھی دنیا کے آگے بہت سی حقیقتیں کھول رہے ہیں۔ تازہ معرکے کے دوران اسرائیل کو نفرت ہی نفرت ملی ہے جبکہ فلسطینی دنیا کی سب سے عظیم،بہادر، باعزت ،باوقار،ثابت قدم اورصابر قوم کی صورت سامنے آئے ہیں۔ دنیا ان کو حیرت سے دیکھ رہی ہے جن کی نہ صرف نیوکلیئر فیملی سلامت ہے بلکہ پورے پورے خاندان اکٹھے ایک ہی چھت کے نیچے ملبے میں دبے پڑے ہیں۔ آدھا خاندان ختم ہوگیا، کسی کی ماں نہیں کسی کا باپ تو کوئی دونوں سے محروم،کوئی اپنے بچوں کو ملبے میں ڈھونڈتا ہوا تو کوئی ان کی لاشوں کو بوسہ دیتا ہوا، ہر ایک شدت کا غمزدہ، مگر کوئی یتیم بے آسرا نہیں، ہر کسی کو رونے کے لیے بے شمار کندھے میسر، خود گرتے ہوئے بھی دوسرے کو سنبھالنے کی فکر۔سب کئی دن سے بھوکے مگر کھانے کی تقسیم پہ صبر سے کھڑے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر ایک گھنٹے میں چھے بچے اور دو مائیں شہید کی جارہی ہیں۔صیہونی درندوں نے ہسپتالوں اور پناہ گاہوں، ہجرت کرتے قافلوں کو نشانہ بنا لیا ہے، امداد روک رکھی ہے مگر اس قوم کی ہمت نہیں توڑسکے۔1999میں ایک کانفرنس میں پاکستان آئی ہوئی مورمن عیسائی خاتون یاد آئی جو مسلمانوں کے فیملی نیٹ ورک پہ حیران تھی۔ کہنے لگی میں نے بوسنیا میں کام کے دوران دیکھا ہے، جنگ میں اتنے بچے یتیم ہوئے مگر کوئی بچہ بے سہارا نہیں تھا، اس کے کسی نہ کسی اپنے نے اسے گود لے لیا ہؤا تھا۔ یہ ہوتی ہے سویلائزیشن!اللہ پر یقین ایسا کہ بچہ ملبے پہ بیٹھاآیاتِ ابتلا کی تلاوت کرے۔ یقین سے خالی ’’مہذب‘‘ دنیا کیا جانے جہاں آپس میں پھٹے ہوئے دل، منتشر شخصیتیں، دْکھی نفسیات،مردم گزیدہ انسان،اور نشے میں دھت وجود دیکھنے کی عادت ہے۔ رہی سہی کسر صنفی شناخت کی گمراہی نے پوری کردی کہ اب اپنے ہم جنس سے بھی خوف آنے لگا۔ توجنگ بندی کا وقفہ آنے تک اڑتالیس دن کی یہ جنگ کئی پہلو سے حماس نے پہلے ہی جیت لی ہے۔پچھتر سالوں سے جوقوم شہادتیں دے رہی ہے، جس کے پتھر بھی دشمن کو جاکرگولی کی طرح لگتے ہیں ، اس کے سامنے ایک ناجائز غاصب قوت کے آج کے چہرے کب تک لڑیں گے، بقول منظر بھوپالی عمر بھر تو کوئی بھی جنگ لڑ نہیں سکتا تم بھی ٹوٹ جاؤ گے تجربہ ہمارا ہے