شہر اقتدار میں گذشتہ چند ہفتوں سے نئی سیاسی بساط کے باعث بھونچال آیا ہوا ہے۔خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے تباہ کن نتائج نے حکمرانوں کے نیندیں اُڑا رکھی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے صورتحال سنبھالنے اور نفیساتی دباؤ میں کمی کیلئے پارٹی کی تنظیم نوکردی ہے ۔ایسے میں گورنر سندھ سمیت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی نے ملک میں جاری گیس بحران پر احتجاج کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے۔وزیراعظم نے وزیر توانائی حماد اظہر کو پارٹی رہنماؤں کے گیس بحران سے متعلق مسائل حل کرنے کی ہدایت کی ۔ عوام اور اپوزیشن نے گیس بحران پر آواز بلند کی تو حماد اظہر نے صاف جواب دیا’’جتنی گیس زمین سے نکل رہی ہے اُتنی ہی گیس عوام کو فراہم کررہے ہیں‘‘۔ مطلب کہ اس سے زیادہ ہم سے توقع مت کیجئے۔ حما د اظہر نے یہ نہیں بتایا کہ 8ماہ کے دوران انہوں نے موسم سرمامیں گیس بحران سے نمٹنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی۔ حماد اظہر نے کہیں یہ وضاحت نہیں دی کہ سسٹم میں اضافی گیس لانے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے۔درحقیقت گیس بحران پر قابوپانے کیلئے اضافی گیس سسٹم میں لانے سمیت کئی ایکشن درکار تھے مگر پاور سیکٹر میں مگن حما د اظہر صاحب نے کوئی پلان تیار ہی نہیں کیا۔ کچھ عرصہ قبل ملک میں موجود گیس ذخائر سے متعلق حماد اظہر صاحب کی وزارت کی تیارکردہ رپورٹ میرے ہاتھ لگی۔ میں یقین سے کہتاہوں کہ حماد اظہر نے یہ رپورٹ کبھی نہیں پڑھی ہوگی۔یہ رپورٹ چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ وزارت توانائی اور ڈائریکٹرجنرل پیٹرولیم کنسیشن کی عدم توجہ کے باعث پاکستان میں16 ٹریلین کیوبک فٹ سے زائد گیس ذخائر پر 30سال گزرنے کے باوجود مطلونہ ڈرلنگ نہیں کی گئی۔بلوچستان کے ضلع کوہلو میں واقع بلاک 28 میںتقریباً 150ارب ڈالر سے زائد مالیت کا 15ٹریلین کیوبک فٹ گیس کا ذخیرہ موجود ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا یہ بلاک 1991ء میں برطانوی کمپنی تلو پاکستان کو ایوارڈ کیا گیا۔ وزارت توانائی اور ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشن کی مبینہ عدم دلچسپی کے باعث ممکنہ طور پر پاکستان کے سب سے بڑے گیس ذخائر میں ڈرلنگ کیلئے تلوپاکستان کو 2013ء تک رسائی ہی نہ مل سکی۔ 38گیس فیلڈز سے 2011ء سے 2018ء کے دوران 30ارب کیوبک فٹ سے زائد گیس دریافت کی گئی تاہم یہ گیس مختلف وجوہات کے باعث آج تک سسٹم میں شامل نہیں کی جاسکی۔ بدترین توانائی بحران سے دوچار پاکستان سالانہ اربوں ڈالر مالیت کی ایل این جی امپورٹ کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ماڑی پیٹرولیم نے پاکستان کی تقدیر بدلنے والے بلاک 28کوہلو تک بالاخر رسائی حاصل کرتے ہوئے ڈرلنگ کیلئے سائز،مک سروے سمیت ابتدائی کام مکمل کرلیا ہے۔ ماڑی پیٹرولیم اس بلاک میں پہلا کنواںآئندہ مالی سال میں ڈرل کرے گی۔ 92نیوز کوموصول سرکاری دستاویز اور متعلقہ حکام سے حاصل ہونیوالی معلومات کے مطابق سابق ایم ڈی اوجی ڈی سی ایل زاہد میر نے انتھک کاوشوں کے نتیجے میں بلاک28 کی آپریٹر شپ2017ء میں حاصل کی ۔ زاہد میر اور اُنکی ٹیم نے وزارت توانائی کے حوصلہ شکن رویے کے باوجود سدرن کمانڈ کے اعلی حکام سے ملاقات کرکے کوہلو بلاک تک محفوظ رسائی کا راستہ ہموار کیا۔ 2018ء میں ماڑی پیٹرولیم نے اس بلاک کی آپیریٹر شپ حاصل کرلی۔ ماڑی پیٹرولیم کمپنی نے اس بلاک میں 95فیصدجبکہ اوجی ڈی سی ایل 5فیصد حصہ دار ہے۔ بلاک 28کوہلو 5ہزار856 مربع کلومیٹر پر محیط ہونے کے باعث رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا بلاک ہے۔ یہ بلاک 1991ء میں برطانوی کمپنی تلو پاکستان نے آپریٹرشپ کے ذریعے حاصل کیا تو اس کیلئے لازم تھا کہ وزارت توانائی اور ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشن تلو پاکستان کی ٹیم کو سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے اس بلاک تک رسائی یقینی بناتے۔ تلو پاکستان کو 2007ء تک کوہلو بلاک تک رسائی سمیت دیگر بلاکس پر کام کرنے میں وزارت توانائی اور ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشن سے حوصلہ افزا تعاون نہ ملا تو اس کمپنی نے بستر بوریا سمیٹنے کا فیصلہ کیا اور 2013ء میں اپنے اثاثے فروخت کرکے پاکستان میں اپنا کاروبار بند کردیا۔ 2018ء کے بعد ماڑی پیٹرولیم کی ٹیم نے سیکورٹی حکام کے تعاون سے بالاخر اس بلاک میں رسائی حاصل کی۔ 1ہزار630لائن کلومیٹر پر مشتمل 2ڈی سائزمک ڈیٹا اکٹھا کیا ۔ مجموعی طور پر ڈیٹا جمع کرنے کا 70فیصد کام مکمل کیا جاچکا ہے۔ کوہلو بلاک میں ڈرلنگ کاآغاز کرنے کیلئے ماڑی پیٹرولیم کا یہ انقلابی اقدام ہے۔ ابتدائی اندازے کے مطابق سمالر لیڈ ٹرینڈ پر گیس کا ذخیرہ ساڑھے تین ٹریلین کیوبک فٹ جبکہ (Bigger Lead Trend)پرگیس کا ذخیرہ گیارہ اعشاریہ نو ٹریلین کیوبک فٹ ہوسکتاہے۔ مجموعی طور پر اس بلاک میں قابل پیداوار گیس کا ذخیرہ 15ٹریلین کیوبک فٹ سے زائد ہوگا جس کی مالیت ملکی گیس کے موجود ہ نرخ کے مطابق 150ارب ڈالر جبکہ درآمدی گیس کے مقابلے میں اس گیس کی مالیت 450ارب ڈالر سے زائد ہوگی۔ماہرین کے اندازے کے مطابق ملکی توانائی کی طلب کے پیش نظر کوہلو بلاک میں 2005ء تک لازمی ڈرلنگ کا آغاز ہونا چاہئے تھا۔ پہلے کنویں کی کامیاب ڈرلنگ کے بعد اصل نتائج سامنے آجاتے جن کے پیش نظر مزید کنویں کھود کرگیس کی پیداوار بڑھائی جاسکتی تھی۔اس طرح38ایسی گیس فیلڈ جہاں سے اربوں کیوبک فٹ گیس دریافت ہوچکی ہے تاہم بدقسمتی سے ان فیلڈ کو ڈویلپ نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان میں ورچوئل پائپ لائن گیس سسٹم کے ذریعے سے ہر ایک فیلڈ سے گیس کو ٹرانسپورٹ کرکے کمرشل استعمال میں لایا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی کیساتھ پیٹرولیم کنسیشن کے دفاتر میں موجود افسران اور کمپنیوں کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ گیس استعمال نہیں کی جارہی۔ یاد رکھیے! دنیا کے کسی بھی ملک کی قومی سلامتی انرجی سیکورٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال وطن عزیز میں اشرافیہ کے گٹھ جوڑ سے مہنگی توانائی کا کھولا گیا گیٹ بند کرنا ہوگا۔وزیراعظم اور اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر پلان بنائیں جس کے ذریعے ملک کے کونے کونے میں موجود قدرتی وسائل کو تلاش کیا جائے۔قرضوں کے دلدل میں پھنسا کوئی ملک بھی کبھی خوشحالی کی منزل تک پہنچا ہے؟